صدر آصف علی زرداری نے بوجھل دل کے ساتھ پیکا ترمیمی آرڈی ننس پر دستخط کر دئیے ہیں اور صحافی تنظیموں نے دوستانہ احتجاج کی رسم پوری کرکے اس دعوے کا درواز ہ کھلا رکھا کہ انہوں نے شہباز شریف حکومت کے آمرانہ طور طریقوں کے خلاف بھی تاریخی جدوجہد کی ہے ۔ایک دن کے احتجاج اور کچھ نرم گرم بیانات کوجدوجہد کی کس قسم میں شمارکیا جاتا ہے یہ تو انہیں ہی معلوم نہیں ہوگا مگر وہ اتمام حجت کررہے ہیں۔قانون کا نام پیکا ہو یا کچھ اور مگر اصل اہمیت اس مائنڈ سیٹ کی ہے جو قوانین کا سہار ا لیتا ہے اور قانون کے پیچھے چھپ کر اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے پر یقین رکھتاہے ۔اس وقت معاملہ کسی ایک طبقے کے حقوق کا ہے نہ کسی ایک طبقے کی زباں بندی اور زنجیر پہنانے کا ہے بلکہ پورا ملک ہی اداروں کی مسماری کا سامنا کر رہا ہے۔اس ملک میں چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام باقی نہیں رہا ۔آئین کہاں ہے اور اس کی حدوقیود اور تقاضے کیا ہیں اب آزادانہ ماحول میں کوئی بھی اس کا جائزہ لینے والا باقی نہیں رہا۔کچھ ہی عرصہ پہلے تک انتظامیہ عدلیہ اور مقننہ کے ساتھ ساتھ میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جارہا تھا ۔معاشرے کو آزاد رکھنے پھلنے پھولنے اور انسانوں کو سوچ وفکر کی بلندیوں پر اُڑنے کے لئے آزاد میڈیا کو ناگزیر قرار دیا جا رہا تھا ۔پاکستان میں دودہائیاں قبل پرائیویٹ میڈیا نے آزادیوں کو بہت بلندیوں پر پہنچا دیا تھا ۔یہ آزادیاں ایک آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں حاصل ہوئی تھیں ۔بعد میں یہی آزادیاں وکلاء تحریک کی بے لاگ کوریج کے باعث مشرف اقتدار کو کھاگئی تھیں ۔یہ آزادیاں صرف دو دہائیوں تک اپنی بہار دکھا سکیں اور آخر کاران آزادیوں کو کسی کی نظر لگ گئی اورپاکستان کے آزاد میڈیا کے بال وپر کترنے کا آغاز ہوگیا ۔رجیم چینج کے بعد جو ہائبرڈ سسٹم ملک میں لاگو ہوا اس نے بہت تیزی سے مشرف دور میں حاصل ہونے والی ابلاغی آزادیوں کے قالین کو لپیٹنے کا عمل شروع ہوا جو اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے ۔میڈیا چوتھا ستون بن کر اُبھرنے سے پہلے ہی حالات کی کرم خوردگی کا شکار ہو کر زمین بوس ہو گیا ہے ۔میڈیا کے” لوگو” وہی ہیں۔ان کے سٹوڈیوز میں بیٹھنے والے اینکر وہی ہیں ان کے مہمان وہی ہیںمگر وہ سب اپنا اعتبار اور بھرم کھو چکے ہیں۔نامی گرامی اینکر بیانیہ سازی کی مشینیں بن چکے ہیں۔یوں لگ رہا ہے کہ پتلیاں ناچ رہی ہیں اور ایک اُلٹے سیدھے موقف کی جگالی کررہی ہیں۔میڈیا ماضی قریب کی تاریخ کے سب سے بڑے بحران کا شکار ہے ۔سینسر شپ ایسی ہے کہ ملک کے سب سے مقبول سیاست اور عملی طور پر دوتہائی نشستیں جیتنے والے شخص کا نام لینے پر پابندی ہے ۔حقیقت میں قاسم وسلمان کے ابا اور بانی پی ٹی آئی جیسی اصطلاحات استعمال کرکے حقیقت میں خود کو مذاق بنا بیٹھا ہے ۔اس کا نتیجہ نکلا کہ عوام نے میڈیا سے بنانیہ سازی کی طاقت چھین لی یا میڈیا کی یہ صلاحیت بے اثر اورناکام بنا دی ۔اس ناکامی کا توانا ثبوت اس وقت سامنے آیا جب عام ووٹر میڈیا کے بھرپور پروپیگنڈے کے باوجود انتخابات میں نامی گرامی اور نجیب ابن نجیب امیدواروں کے معروف انتخابی نشانوں کو چھوڑ کر آلو بینگن ٹماٹر جوتوں اور چمٹوں باجوں کو ووٹ دے بیٹھے ۔پاکستان کے عام آدمی نے حالات سے تنگ آکر اسٹیبشلمنٹ اور میڈیا دونوں سے بیانیہ سازی کی طاقت ووٹ کی پرچی سے چھین لی۔یہ تنگ آمد بجنگ آمد کا مرحلہ ہوتا ہے۔اب وینٹی لیٹر پر پڑے میڈیا کی آزادیاں بھی حکمران طبقات کوقبول نہیں۔چوتھے ستون کا انجام بھی اول الذکر تین آئینی ستونوں سے چنداں مختلف نہیں ہوا ۔حکمران طبقات کا المیہ یہ ہے کہ وہ ہر ادارے کو بے جان اور کٹی ہوئی پتنگ جیسا بے سمت اور ہلکا بنا نے میں کامیاب ہو چکے ہیں مگر خود عوام میں اپنا بھرم قائم رکھنے اور اپنے بیانیے کو قبولیت عامہ دینے میں انہیں تاریخ کا مشکل ترین مرحلہ درپیش ہے۔کل تک وہ جس کو بانی فلاں قراردیتے تھے تو سب سرکار کے عطا کردہ اس خطاب کو صدق ِ دل کے ساتھ قبول کرلیتے تھے ،کسی کو ہائی جیکر قرار دیتے تھے تو اکثرلوگ ایسا ہی سمجھنے لگتے تھے مگر اب یہ سکہ بازار میں چل نہیں رہا ۔میڈیا کے ذریعے ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر جو بیانیہ عوام کے حلق سے اُتارا جا رہاہے وہ اگلے ہی لمحے عوام اُگل دیتے ہیں ۔اب پچیس کروڑ عوام کو قوانین کے خوف کی زنجیریں پہنا کر روبوٹس کی مخلوق تخلیق کی جا رہی ہے۔تاریخ کا سبق یہ ہے جدید دور میں معاشرے اس انداز سے نہیں چلتے ۔قوانین کے کوہ قاف کے پیچھے عوام کی آزادیوں کی نیلم پری کو تادیر قید نہیں رکھا جا سکتا ۔سوویت یونین نے مدت دراز تک ایک آہنی پردے کے پیچھے اپنے عوام کو دنیا سے کاٹ کر رکھا ۔کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اس آہنی پردے کے پیچھے انسانوں کا کیا حال ہے؟دنیا کو اتنا ہی معلوم ہوتا تھا جو ریڈیو ماسکو بتاتا تھا یا کبھی کوئی اہلکار منحرف ہو کر آزاد دنیا میں پناہ لے کر اپنی اور ہم وطنوں کی آب بیتیاں سنا کردنیا کو کچھ احوال بتاتا تھا ۔اس آہنی پردے کے پیچھے سوویت یونین کے معاشرے کو لگنے والے گھن اور عارضے بھی چھپے رہے ۔یہاں تک کہ ایک وقت آیا جب فیصلہ ساز اس نتیجے پر پہنچے کہ عوام کی آزادیاں واپس کئے بغیر ریاست اور عوام کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم نہیں کیا جا سکتا ۔ گورباچوف نے دیوار پر لکھا ہوا پڑھ کر گلاسناسٹ اور پریسٹرائیکا کے نام پر اصلاحات کے ذریعے عوام کوآزادیاں لوٹانے کا عمل شروع کیا مگر اس وقت تک دیر ہو چکی تھی ۔آہنی پردے کے پیچھے پلنے والے عارضے ریڈیو ماسکو اور رشین ٹی وی کی فرضی بیانیہ سازی کی دھول میں لاعلاج ہو چکے تھے ۔ بقول شاعر
ہر خواب کے مکاں کو مسمار کر دیا ہے
بہتر دنوں کا آنا دشوار کر دیا ہے
پائے جنوں میں کیسی اُفتاد آپڑی ہے
اگلی مسافتوں سے انکار کر دیا ہے
