نوجوانوں کا مستقبل جوابازی؟

پاکستان ماضی قریب میں روزگار کے اچھے مواقع اپنے نواجونوں کو دینے میں کامیاب نہ ہوسکا ۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں بے روزگاری دوسرے ممالک کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے ۔روزگار کے مواقع پیدا ختم کرنے کی یہاں شعوری کوششیں ہوئیں اور ان کوششوں کو طاقت وار لوگوں کی سرپرستی حاصل رہی ہے ۔ ایک ایسا ملک جس کی ساٹھ فیصد سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے وہاں ترقی کی شرح بہت ہی کم ہے اور دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف ہجرت کا عمل دنیا کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے ۔ مگر شہروں میں گزشتہ کئی عشروں کے روزگار بھی ختم ہوتے جارہے ہیں ۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی اب دوکروڑ تک ہوچکی ہے اس شہر کو کسی زمانے میں ایشیاء کے بڑے صنعتی شہروں میں شمار کیا جاتا تھا ۔ مگر کراچی میں بدامنی اور سرکاری سرپرستی میں سیاسی غنڈا گردی نے اس شہر کو گندگی کا ڈھیر بنا کر رکھ دیا ۔ اس کے مقابلے میں جکارتہ ، ممبئی، سنگاپور، ٹوکیو، شنگھائی ،سیول ،ڈھاکہ وغیرہ روزگار دینے کے سب سے بڑے مراکز بن کر ترقی کرتے رہے اور کراچی غنڈا گردی ، بھتہ خوری ، اور قبضہ مافیا و ٹینکر مافیا کے ہاتھوں یرغمال رہا ۔یوں جو شہر کسی زمانے میں پاکستان بھر کے نوجوانوں کو روزگار دیتا تھا اس شہر کو اس قابل نہیں چھوڑا گیا کہ وہ مزید نوجوانوں کو کاروبار یا روزگار کے مواقع فراہم کرے ۔خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پہلے بھی روزگار اور کاروبار کے مواقع کم تھے مگر افغان جنگ میں ہم نے بطور قربانی ان علاقوں میں جو چند ایک کارخانے ، فیکٹریاں تھیں ان کو بند کروا دیا اور انہیں سمگلنگ پر لگا دیا ۔ اس وقت پاکستان کی آبادی پچیس کروڑ تک ہوچکی ہے اورلیکن ہمارے کسی بھی ایک حکومت نے نوجوانوںکو روزگار دینے کا کوئی پانچ سالہ یا دس سالہ منصوبہ نہیں بنایا ۔ گزشتہ دس سے پندرہ برسوں میں انڈیا اوربنگلہ دیش نے پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ روزگار کے مواقع اپنے نوجوانوں کو دئیے ۔ایسے میں جب روزگار کے مواقع دستیاب نہیں ہیں اور نوجوانوں کی فرسٹریشن اپنی انتہا پر ہے انہیں آن لائن جوا بازی سے کون روک سکتا ہے ۔ دنوں اور مہینوں میں کروڑوں کمانے کے چکر میں لاکھوں نوجوان اپنے والدین کے بچائے ہوئے پیسے جوئے میں ہار رہے ہیں ۔ لاہور ، پنڈی ، کراچی ، گجرات ، گوجرانوالہ اور دیگر شہروں میں آن لائن کال سینٹروں کا ایک اتنا بڑا نیٹ ورک بن چکا ہے کہ اب ان کی تعداد گنتی سے باہر ہے ۔ان کال سینٹروں میں بے روزگار نوجوان رات کو بیٹھ کر دنیا بھر کے لوگوں کے ساتھ فراڈ کرتے ہیں اور اس فراڈ کے پیسوں سے ان نوجوانوں کو چار سے پانچ فیصد رقم دی جاتی ہے ۔باقی ساری رقم وہ فراڈی لے جاتے ہیں جو دوسرے ممالک میں بیٹھے ہیں اور بدنامی پاکستان کی ہوتی ہے ، حیرت اس بات پر ہے حکومت اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کررہی ہے کہ کیسے پاکستان میں بیٹھے ہوئے یہ کم عقل بے روزگار کم پڑھے لکھے نوجوان امریکہ یا کسی دوسرے ترقی یافتہ ملک میں سروسز کے نام پر فراڈ کرتے ہیں ۔یہ نشہ بہت تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے اس لیے کہ اس کام کے نوجوانوں کو پچاس ہزار سے زیادہ مہینے کے ملتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ نوجوان جعل سازی میں تربیت بھی حاصل کررہے ہیں ۔ان سب نوجوانوں کو اصل فراڈئیے دبئی میں ایک اکاونٹ کھلوا دیتے ہیں اور ان کو پیسے اس اکاونٹ کے ذریعے دیتے ہیں ۔اب زیادہ تر اس فراڈ میں شامل لوگ وہاں سے پاکستا ن میں بیٹھے بیٹھے اپنے پیسے منتقل کرتے ہیں ۔پیسے منتقل کرنے کے لیے ہر شہر میں سینکڑوں خود ساختہ دکانیں بھی کھلی ہوئی ہیں ۔ یہ تو وہ نوجوان ہیں جو کال سینٹروں کی پیداوار ہیں یہ نوجوان وہی پیسے جب وہ وصول کرتے ہیں تو اسی رات فراڈ فاریکس ٹریڈنگ میں دس گنا کرنے کے شوق میں ہار جاتے ہیں ۔ پاکستان بھر میں ہر دس میں سے دو نوجوان اس وقت مختلف ایپس پر روزانہ جوا بازی کرتے ہیں ۔ یہ جوا ایسا ہے کہ ہزار میں سے دو تین کو اس میں لاکھوں کا فائدہ بھی ہوتا ہے مگر آن لائن ہونے والے جوئے بازی میں اصل فائدہ فراڈیوں کا ہوتا ہے ۔کنٹرول ان کے ہاتھوں میں ہوتا ہے وہ اسی فیصد اپنے کھاتے میں ڈال کر بیس فیصد واپس چند لوگوں میں بانٹ دیتے ہیں جس کی وجہ سے باقی اسی فیصد ہارنے والے خود کو ان بیس فیصد خوش قسمتوں کی صف میں لانے کے لیے اپنی جائیداد ، والدین کی پنشن یا قرضہ لیکر پھر سے اس میدان میں کود پڑتے ہیں ۔ یہ عمل جاری وساری ہے اور ہمارے جاہل لوگ اس بات پر خوشیاں مناتے ہیں کہ ان کے بچے نے ایک ہی رات میں دو ہزار ڈالر کما لیے وہ یہ نہیں سوچتے کہ جوئے میں آئے دو لاکھ ڈالرز بھی یہ آن لائن جوا باز واپس کھینچ لیتے ہیں ۔ اس جوئے میں مزید پاکستانیوں کو شامل کرنے کے لیے ملک بھر میں آن لائن اور گراونڈ پر ٹیوشن سینٹر تک بن چکے ہیں جہاں جوئے بازی کی تربیت دی جاتی ہے ۔تمام سوشل میڈیا کے ایپس پر نوجوانوں کو راغب کرنے لیے ان فراڈیوں کے مشتہرین کی تعداد اب کروڑوں میں جاچکی ہے ۔ جب میں نے اس پر تحقیق کی کہ کیا یہ صرف پاکستان کے نوجوانوں کے ساتھ ہورہا ہے یا دنیا میں دیگر ممالک بھی اس کی زد میں ہیں تو یہ عقدہ کھلا کہ باقی ممالک میں ان معاملات کو ریگولیٹ کرنے اور قانون کے تابع کرنے کی صلاحیت پاکستان کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ ہے اور ان ممالک میں آن لائن فراڈ پر فوری گرفت و سزا و جرمانہ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان ممالک میں بہت کم تعداد میں لوگ اس لت کا شکار ہورہے ہیں ، زیادہ تر افریقی ممالک اور پاکستان کے نوجوان اس کا شکار ہورہے ہیں ۔ اس جوئے کی وجہ سے پاکستان میں ڈالر کی قیمت بھی بڑھتی رہتی ہے اس لیے کہ ان لائن جوابازی کے لیے آپ کو لازمی ڈالروں میں پے منٹ کرنی پڑتی ہے اور ڈالر آپ کو مارکیٹ سے خریدنے پڑتے ہیں ۔پاکستان پہلے ہی درآمدات کی مد میں اپنی حیثیت سے تین گنا زیادہ زرمبادلہ خرچ کرتا ہے ایسے میں جب اس کے لاکھوں نوجوان جوئے میں ڈالر لگاتے ہیںتو اس سے ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے اور چونکہ یہ ڈالر یہ سب نوجوان بلیک مارکیٹ سے اُٹھا رہے ہیں اس لیے اس کا زیادہ اثر پڑتا ہے ۔ پاکستان افغانستان سے منشیات اسمگلنگ ، معدنیات اسمگلنگ اور اسلحہ سمگلنگ کے لیے ڈالرز یہاں کے بلیک مارکیٹ سے اٹھاتا ہے ۔ اور ہنڈی حوالے کے مد میں بھی واپسی ڈالروں کی شکل میں ہوتی ہے اس لیے اس ملک میں ڈالر کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں حالانکہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں ڈالر اپنی اصل شرح تبادلہ سے نوے روپے زیادہ میں فروخت یا تبدیل ہوتا ہے ۔پاکستان جس کا سارا دارو مدار ہی قرضوں پر ہے اور ان تما م قرضوں کی واپسی ڈالروں میں ہونی ہے اور ڈالر نوے روپے اپنی قیمت سے زیادہ پر بک رہا ہے تو آپ اندازہ لگائیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ اس سب کا ایک ہی حل ہے کہ اس ملک میں سیاسی اور تجارتی استحکام آئے اور یہاں امن قائم ہو۔ اس ملک کے وسائل اس کی ترقی و بہبود پر خرچ ہوں اور چار ہزار ارب روپوں سے زیادہ کے سالانہ کے اشرافیہ کے لیے جو مراعات ہیں وہ ختم ہوں ۔ اور اس ملک میں قابل عمل و ضرورت نظام تعلیم رائج ہو اور ملک میں ترقی کے لیے ہر صوبہ اور ہر شہر اور گاؤں میں یکساں مواقع دستیاب ہوں تو پاکستان دس برسوں میں چین جیسا بن سکتا ہے ۔ یہی سب کچھ کرکے چین آج ایک بہت بڑے صنعتی اور اقتصادی طاقت کا خواب شرمندہ تعبیر کرچکا ہے ۔ ہم پاکستان کے نوجوانوں کو تعلیم ، تربیت اور روزگار کی جگہ اسے جوا کھیلتا دیکھ کر تالیاں بجا رہے ہیں تو پھر اس ملک کے نوجوانوں کا مستقبل جوا ہی ہوگا ۔

مزید پڑھیں:  ''سانوں یاداں تیریا آندیاں نے ''