ویب ڈیسک: بلدیاتی نمائندوں کوفنڈز ملے نہ اختیارات، جس کی وجہ سے قبائل کی ترقی خواب بن کر رہ گئی، قبائلی اضلاع کو آئینی ترمیم کے ذریعے 2018 میں صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا تھا، اور پہلی بار2021 میں قبائلی اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔
بلدیاتی نظام کے قیام کے 4 سال گزرنے کے باوجود منتخب بلدیاتی نمائندوں کوفنڈز ملے نہ اختیارات، جس کے باعث لاکھوں قبائل کی ترقی کا خواب خواب ہی بن کر رہ گیا، جو تاحال شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔
قبائلی اضلاع 2018 تک وفاق کے زیر انتظام تھے، جس کا وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات فاٹا کہا جاتا تھا جس پر ملک کی آئین کی بجائے فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن ایف سی آر لاگو تھا۔ باجوڑ سے لیکر جنوبی وزیرستان تک 7 قبائلی ایجنسیز اور 6 ایف ارز یعنی فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے لیے 2018 میں پارلیمنٹ میں آئینی ترامیم کی گئیں۔
آئینی ترامیم کے ذریعے 2018 میں فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کردیا گیا جس کو اب ضم اضلاع کہاجاتا ہے جو کہ 8 اضلاع پر مشتمل ہے۔ 75 سالہ پسماندگی اور احساس محرومی کے خاتمہ کے لیے پہلی بار 2021 میں ضم اضلاع سمیت صوبہ بھر میں بلدیاتی انتخابات کرائے گئے تاکہ ضم اضلاع میں گراس روٹ لیول پر مسائل بھی حل ہو اور ترقیاتی منصوبوں بھی شہری مستفید ہو۔
بدقسمتی سے صوبے کے دیگر اضلاع کی طرح قبائلی اضلاع کے بلدیاتی نمائندے بھی تاحال اختیارات اور فنڈز سے محروم ہیں۔ انہیں اختیارات ملے اور نہ ہی فنڈ جس کی وجہ سے علاقے میں ترقیاتی امور ٹھپ پڑے ہیں۔
دوسری جانب قبائلی اضلاع کے بلدیاتی نمائندوں نے صوبے کے دیگر منتخب بلدیاتی نمائندوں کے ساتھ مل کر آئینی اختیارات کے حصول کے لیے کئی بار احتجاج کیا۔ 2 جنوری 2025 کو پشاور میں سینکڑوں بلدیاتی نمائندوں نے صوبائی حکومت کے خلاف شدید احتجاج کیا جس پر پولیس نے آنسو گیس تک استعمال کیا۔ اس احتجاج کے نتیجے میں صوبائی حکومت بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات کی تفویض اور فنڈز کی فراہمی کے لیے سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور حکومت بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات کی تفویض پر آمادہ ہو گئی۔
