مسئلہ کرم میں جرگہ کوہاٹ میں

ضلع کرم میں بدترین تصادم اور ڈپٹی کمشنر کے قافلے پر حملے کے بعد ایک مرتبہ پھر سرکاری انتظامی عہدیدار کو نشانہ بنانے سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ اب تک ہونے والی حکومتی اقدامات اور جرگہ کی مساعی ھیچ ہیں جبکہ مورچوں اور کمین گاہوںکو اڑانے کے اقدام کے باوجود اب بھی علاقے میں ایسے عناصر موجود ہیں جو جب چاہیں سرکاری حکام تک کو با آسانی نشانہ بنا سکتے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ عناصر ہیں کون اور علاقے میں اتنے اقدامات ار انتظامات کے باوجود موجود کیسے ہیں یا پھر ان کو آکر حملے کا موقع کیسے ملتا ہے ایسا لگتاہے کہ حکومتی عملداری کو مضبوط بنانے میں حکام کی پالیسیاںاور طرز عمل دونوں علاقے کے عوام کے لئے قابل قبول نہیںعوام نہ تو حکومتی اقدامات سے مطمئن ہیں اور نہ ہی حکومتی مشینری عوام کے تعاون کے حصول میں کامیاب ہو سکی ہے اور ممکن ہے جرگہ کے فیصلوں سے بھی عوام کی ایک بڑی تعداد لاتعلق ہوسب سے بڑھ کر یہ کہ حکومتی مشینری کو حالات و واقعات کا ادراک ہے اور نہ ہی خفیہ اطلاعات کا نظام اس قدر فعال اور زمین دوز ہے کہ وہ بروقت خطرے اور مشکوک افراد کی کسی سرگرمی کی اطلاع دے سکے ان سارے عوامل سے قطع نظر حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ایک مرتبہ ڈپٹی کمشنر کے قافلے کونشانہ بنایاگیا اور اب اسسٹنٹ کمشنر پر حملہ کرکے زخمی کیاگیا جس سے لگتا ہے کہ حکام کی مناسب حفاظتی اقدامات پر شاید توجہ ہی نہیں یا پھر ان کو حالات کا درست ادراک نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ خطرہ بھانپ سکتے ہیں اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ اپر کرم میں دو متحارب قبیلوں کے درمیان جنگ بندی کے لئے آنے والے سرکاری قافلہ پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر دی جس سے اسسٹنٹ کمشنر کرم سمیت تین پولیس اہل کار زخمی ہوگئے۔ ایس ایچ او کے مطابق اپر کرم میں ضلعی انتظامیہ نے جنگ بندی کروا دی تھی۔اگلے روز دوسرے فریق سے بات چیت کے لیے قافلہ پہنچا تو مسلح افراد نے فائرنگ کر دی۔دریں اثناء وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات، بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف نے کمشنر ہائوس کوہاٹ میں ایک گرینڈ جرگہ سے خطاب میںاس بات پر زور دیا کہ موجودہ تنازعہ مذہبی یا فرقہ وارانہ نہیں بلکہ نفرت اور باہمی دشمنی کی پیداوار ہے۔بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کہاحل صرف اسی میں ہے کہ ہم نفرت کو مسترد کر کے محبت کو فروغ دیں۔ جس دن ہم دشمنی کے بجائے امن کا انتخاب کریں گے، ہم اپنے پیاروں کے نقصان کا ماتم کرنے یا تباہ شدہ علاقوں کو دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے۔قبل ازیں، چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا ندیم اسلم چوہدری نے بھی جرگہ سے خطاب کیا۔ انہوں نے عمائدین اور جرگہ اراکین کی مذاکراتی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ حکومت مکمل طور پر امن معاہدے کے نفاذ کے لیے پرعزم ہے اور عوام کے تمام جائز مطالبات پورے کیے جائیں گے جرگے میں انسپکٹر جنرل پولیس ذوالفقار حمید بھی شریک تھے۔ کمشنر کوہاٹ ڈویژن، سینئر سرکاری حکام، قبائلی عمائدین، اور کمیونٹی رہنماں نے بھی شرکت کی۔ تمام شرکاء نے امن معاہدے کے نفاذ اور خطے میں استحکام کی بحالی کے عزم کا اعادہ کیا۔ایک ایسے موقع پر جب ایک اعلیٰ سطحی جرگہ میں مشیر ، چیف سیکرٹری اور آئی جی سے لے کر اعلیٰ ڈویژنل اور مقامی حکام موجود تھے عین اسی روز اور اسی موقع پر کرم میں ان کی مساعی کو مسلح چیلنج کیا گیا دلچسپ امر یہ ہے کہ کرم میں حالات کو معمول پرلانے کے لئے ہونے والے جرگہ کے شرکاء اور اعلیٰ حکام ابھی تک زمینی راستے سے علاقے میں نہیں گئے اور ان کا جرگہ ومشاورت کاعمل کوہاٹ ہی میں ہوتا ہے جو حکام وہاں جانے کی کوشش کرتے ہیں ان پر حملہ ہوتا ہے نیز معاہدے کے باوجود وقتاً فوقتاً قافلوں کوبھی نشانہ بنایا جاتا ہے جواس امر پر دال ہے کہ کرم میں قیام امن کے لئے اقدامات اور مساعی کی حقیقت نشستند و گفتند و برخواستند سے زیادہ کچھ نہیں حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اعلیٰ حکام ان واقعات کی اصل وجوہ کو تسلیم کرنے پر ہی تیار نہیں حالانکہ یہاں تنازعات پانی وزمین یاپھر قبائلی لڑائی جس بھی وجہ سے شروع ہو سب کی تان فرقہ واریت پر آکر ٹوٹتی ہے اور ریاست وحکومت عرصے سے چلنے والے اس تنازعے کا حل نکالنے میں ہر بار ناکام ہوتی ہے تباہی کے ایک خوفناک دور کے بعد ہی جا کر کہیں معاملہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے اور درمیانی وقفے کے بعد ایک مرتبہ پھر اس دوران ہونے والی تیاری کے نتائج سامنے آنا شروع ہوجاتے ہیںجس کا حل علاقے میں بلا امتیاز تطہیری آپریشن اور اسلحہ کی واپسی کے بعد مزید اسلحہ لانے کے راستوں کی مسلسل سخت چیکنگ کے باعث روک تھام ہے جب تک علاقے میں اسلحہ موجود ہے اور لڑائی چھڑ جانے کی اصل وجہ باقی ہے کامیابی کی زیادہ توقع نہیں۔

مزید پڑھیں:  گھر کی لڑائی کو باہر مت لے جائیں