کیا کیا جائے ، نہ”وہ” باز آتے ہیں نہ ہم خاموش رہ سکتے ہیں اگرچہ اس حوالے سے ہم اکثر مرزا غالب سے رجوع کرتے ہوئے وہ ”خوبدلنے اور وضع چھوڑنے” والے مشہور شعر بھی بار بار لکھ کر مدعا پوری کرتے ہیں اور مدعا عنقا نہ ہونے کے باوجود اب کی بار ان الفاظ سے احتراز کرنے پر مجبور ہیں تاہم مسئلہ تو سامنے لانا بھی ضروری ہے اور وہ ہے ایک پشتو ضرب المثل کے مطابق ”اموختہ بلا پہ بسم اللہ نہ زی” یعنی عادی بلا کو آپ لاکھ بسم اللہ اور دیگر ردبلا کے حوالے سے آیات کا ورد کرتے رہیں یہ اتنی ڈھیٹ بلا ہے کہ جانے کا نام نہیں لیتی اور ہماری جان کو ایسی چمٹی ہوتی ہے کہ ہم لاکھ بھی چاہیں کہ یہ ہمیں چھوڑ دیں لیکن اس نے کمبل بن کر ہمیں نہ چھوڑنے کی قسم کھا رکھی ہے اور خاص طور پر رمضان المبارک سے پہلے ہی یہ بلا عوام پر نازل ہوجاتی ہے ، امید ہے کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے بہرحا ل ابھی گزشتہ روز ہی ایک خبر آئی تھی کہ ذخیرہ اندوزوں نے ”واردات” ڈالنے کے لئے ”چاقو چھریاں” تیز کرلی ہیں یعنی بقول ڈاکٹر راحت اندوری مرحوم
اس کی کتھئی آنکھوں میں ہیں جنتر ونتر سب
چاقو واقو ، چھریاں وریاں ، خنجر ونجر سب
خبر اگرچہ پھلوں کے بارے میں تھی کہ رمضان میں من مانے داموں پر مختلف پھل بیچنے کے لئے کولڈ سٹوریج میں ذخیرہ کئے جارہے ہیں علاوہ ازیں بیسن بھی مہنگی کر دی گئی ہے تاہم یہ کلیہ دیگر اشیائے ضروریہ خصوصاً خوردونوش کی اشیاء پر بھی لاگو ہوتا ہے اور عام طور پر ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اضافہ شعبان کے نصف کے بعدرمضان کے اختتام تک جاری رہتا ہے کہ ا کثر بڑے بڑے تاجروںسے لے کر دکانداروں تک نے اسی مدت کے دوران عوام پر مہنگائی ٹھونسنے کی ”وارداتیں” ڈالنی ہوتی ہیں اوراکثر نے رمضان کے آخر نصف یا کم از کم عشرے کے دوران عمرے پر بھی جانا ہوتا ہے اور بعد میں اگر کسی نے حج پر جانا ہو تو جو رقم وہ ”مقدس سفر” کے لئے داخل کر چکے ہوں اسے مع دیگر اخراجات کے پورا کرنا بھی تو ضروری ہوتا ہے حالانکہ ان کے بارے میں ہر سال عام غریب کیا کیا کہتے ہیں یعنی بقول خواجہ حیدر علی آتش
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
اب تو ہم نے اپنے ملک کے ان ” ایمانداروں” کا دوسرے دیشوں کے تاجروں کے ساتھ موازانہ کرنا بھی چھوڑ دیا ہے کہ ہمیں معلوم ہے یہ سب ہم اپنی تسلی کے لئے ہی کرتے رہتے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ
مگر فرق اس سے تو پڑتا نہیں
چلیں ا گر دیگر مسلمان ملکوں کا ذکر نہ بھی کیا جائے خصوصاً عرب اور خلیجی ریاستوں کے حوالے سے بات نہ بھی کی جائے جہاں ہماری طرح رمضان کے مہینے کے ساتھ مبارک کا لاحقہ کے بجائے رمضان کریم کے ساتھ اس مقدس مہینے کو پکارا جاتاہے اور حقیقتاً وہاں رمضان ہر خاص و عام کیلئے اللہ کریم کے انعام کے طور پرآسانیاں بانٹتا رہتا ہے یعنی نہ صرف اشیائے خوردنی بلکہ ہر چیز پر ارزانی لازم کردی جاتی ہے خود ہم نے ایک باررمضان سے ایک مہینے پہلے قطر میں یہ سب ”مہربانیاں اور کرم نوازیاں ” اپنی آنکھوں سے بٹتی دیکھیں ہم اپنے ایک دوست فیروز آفریدی کی مہربانی سے وہاں ایک کثیر اللسانی مشاعرے میں شرکت کرنے گئے تھے تو رمضان کی آمد میں ایک ڈیڑھ مہینہ رہ گیا تھا اور کیا بڑے ، کیا چھوٹے تمام سٹورز پر ”رمضان کریم” کے بورڈ اور بینرز آویزاں کردیئے گئے تھے اور ہر چیز کی قیمت میں 40سے 70 فیصد کمی کے علاوہ بڑے بڑے مالز پر خریداروں کو ٹوکن بھی دیئے جارے تھے جن کا آدھا حصہ وہیں بڑے بڑے ڈرم میں جیکہ باقی آدھااپنے پاس رکھنے کا سلسلہ تھا اور فیروز آفریدی نے بتایا کہ عہید کی رات قرعہ اندازی کے ذریعے موٹر کاروں سے لے کر موٹرسائیکلوں اور دیگر لگژری الیکٹرانک اشیاء وغیرہ بطور انعام دیئے جاتے ہیںیہ سلسلہ ان تمام خلیجی ریاستوں میں ہر سال دیکھنے کو ملتاہے اس پر ہمیں قیصر الجعفری یاد آگئے
تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے
میں ایک شام چرالوں اگر برا نہ لگے
یہ تو خیر مسلمان ملکوں کی بات تھی جو اسلام کے پیروکار ہونے کے ناتے اللہ پاک کی خوشنودی کے لئے رمضان کے مہینے میں تجوریوں کے منہ کھول لیتے ہیں جبکہ دوسری جانب اپنامنافع ترک کرتے ہوئے قیمتوں میں بے پناہ کمی کرکے غریبوں کو بھی رمضان اور عید کی برکتیں سمیٹنے میں سہولتیں فراہم کرتے ہیں جبکہ اس کے برعکس مغربی ا قوام کے ہاں اپنے مذہبی تہواروں کرسمس ، ایسٹر اور دیگر مواقع پرعوام کے لئے اسی نوعیت کی جو رعایتیں دی جاتی ہیں ان کوفی الحال ایک طرف رکھتے ہوئے ہم اپنے ہمسایہ بھارت میں خاص مواقع پر جوآسانیاں فراہم کی جاتی ہیں اگر برا نہ لگے تو ان کا تذکرہ بھی کر لیاجائے ۔ ایک تو یہ ہے کہ وہ جوکسی زمانے میں پورے برصغیر میں (دوسری جنگ عظیم کے بعد) راشن بندی کر لی گئی تھی اور لوگوں کوآٹا ، چینی وغیرہ ہر گھرانے کے سربراہ کے نام پر جاری راشن کارڈ کے ذریعے کنٹرول ریٹ پرمہیا کیا جاتا تھا وہ سسٹم پاکستان میں تو بعد میں ختم کردیا گیا تھا مگر بھارت میں آج تک جاری و ساری ہے اور اسی کے تحت رمضان کے مہینے میں مسلمانوں کو خصوصی رعایت کے تحت اشیاء فراہم کی جاتی ہیں ، اسی طرح رمضان المبارک کے دوران عمرے اور حج کیلئے جانے والے حجاج کرام کو ہوائی سفر کے ٹکٹوں پر خصوصی رعایت بھی ہر سال دی جاتی ہے مگر ہمارے ہاں عمرے اور حج کے لئے جانے والوں کو جس طرح بعض اوقات اضافی اخراجات ادا کرنے پڑتے ہیں وہ بھی لمحہ فکریہ ہے اب ذرا مغربی ممالک کودیکھتے ہیں گزشتہ چند برس سے انگلستان سے آنے والی اطلاعات کے مطابق جس طرح کرسمس ، ایسٹر وغیرہ پر مختلف بڑے اور چھوٹے سٹورز پر کلیئرنس سیل لگا دی جاتی ہے اور قیمتوں میں بعض اوقات 80 فیصد تک رعایت دی جاتی ہے اسی طرح اب رمضان کے دوران مسلمان خریداروں کے لئے خصوصی رعایتی قیمتوں میں اشیائے خوردنی فراہم کی جاتی ہیں جبکہ دیگر اشیاء پر بھی کلیئرنس سیل کے تحت 50 فیصد تک رعایت عام سی بات ہے اور بعض دیگر مغربی ممالک بھی اب انگلستان کی تقلید میں مسلمانوں کے ساتھ یہی رویہ اختیارکر رہے ہیں مگر ہمارے ملک میں رعایت تو خیر کیا ہوالٹا عوام کی چمڑی اتارنے کیلئے یہی مواقع غنیمت جانے جاتے ہیں او ر مصنوعی مہنگائی کا عذاب ان پرمسلط کرکے لوٹنا ایک باقاعدہ وتیرہ بن چکا ہے اور ہم بھی پریشان انہی دنوں میں اپنی عادت سے مجبور ہو کر دل کے پھپھولے پھوڑتے رہتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ کسی نے بھی توجہ نہیں دینی مگر کیا کیا جائے کہ
وہ اپنی خونہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
سبک سربن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگردان کیوں ہو؟
