کیا دھماکہ کرنے والے اور عام

کیا دھماکہ کرنے والے اور عام شہری میں کوئی فرق نہیں؟سپریم کورٹ

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ میں‌ملٹری ٹرایل کیس کی سماعت کے دوران جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ 15 دن میں فیصلہ ہوجائے تو ضمانت ہونے نہ ہونے سے کیا ہوگا؟ کیا ملک دشمن جاسوس کیساتھ ساز باز کرنے والے ، کیا دھماکہ کرنے والے اور عام شہری میں کوئی فرق نہیں ہے؟
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ کر رہا ہے، جبکہ جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل کا آغاز کر دیا۔
دلائل دیتے ہوئے ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ سویلنز کا کورٹ مارشل کسی صورت نہیں ہو سکتا، فوجی عدالتوں کا طریقہ کار شفاف ٹرائل کے تقاضوں کے برخلاف ہے ، سپریم کورٹ کے تمام پانچ ججز نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے طریقہ کار کے شفاف ہونے سے اتفاق نہیں کیا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ ملک دشمن جاسوس کیساتھ ساز باز کرنے والے ، کیا دھماکہ کرنے والے اور عام شہری میں کوئی فرق نہیں ہے؟ اس پر خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ میں کسی دہشتگرد یا ملزم کے دفاع میں دلائل نہیں دے رہا، سویلنز کا کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو اکیسویں ترمیم نہ کرنا پڑتی۔
عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ 21ویں ترمیم میں تو کچھ جرائم آرمی ایکٹ میں شامل کیے گئے تھے، اس پر ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ اگر آرمی ایکٹ میں ترمیم سے کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو آئینی ترمیم نہ کرنی پڑتی، اس طرح کورٹ مارشل ممکن ہے تو عدالت کو قرار دینا پڑے گا کہ 21ویں ترمیم بلاوجہ کی گئی۔
خواجہ احمد حسین نے کہا کہ 21ویں ترمیم میں آرٹیکل 175 میں بھی ترمیم کی گئی، فوجی عدالتوں میں فیصلے تک ضمانت کا کوئی تصور نہیں، جسٹس حسن اظہر رضوی نے اس موقع پر ریمارکس دیئے کہ 15 دن میں فیصلہ ہوجائے تو ضمانت ہونے نہ ہونے سے کیا ہوگا؟ وکیل جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ نے جواب دا کہ فوجی عدالتوں میں اپیل کسی آزاد فورم پر جاتی ہے نہ مرضی کا وکیل ملتا ہے۔
اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے دلائل محدود رکھیں، کیا مرکزی فیصلہ درست تھا یا نہیں؟ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آپ نے شیخ لیاقت حسین کیس کی مثال دی تھی، اس وقت پبلک اور آرمی میں براہ راست کوئی لڑائی نہیں تھی، غالباً ایک واقعہ کراچی میں ہوا تھا جس میں ایک میجر کو اغواء کیا گیا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ 21ویں ترمیم میں تو سیاسی جماعت کو باہر رکھا گیا تھا، ہمارے سامنے سوال صرف یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق کس پر ہوگا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ خدانخواستہ دہشتگردی کا ایک حملہ پارلیمنٹ، ایک حملہ سپریم کورٹ اور ایک حملہ جی ایچ کیو پر ہوتا ہے، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ پر حملے کا ٹرائل انسداد دہشت گردی عدالت میں چلے گا، جی ایچ کیو پر حملہ کیس کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں چلے گا، میری نظر میں تینوں حملے ایک جیسے ہی ہیں تو تفریق کیوں اور کیسے کی جاتی ہے۔
ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ عدالت ایسا دروازہ نہ کھولے جس سے سویلینز کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو، اس پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس میں کہا کہ ہم کوئی دروازہ نہیں کھول رہے، ہم نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ اپیل منظور کی جاتی ہے یا خارج۔ خواجہ احمد حسین نے وزارت دفاع کے وکیل کے دلائل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دلائل میں کہا ہے کہ آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت اپیل قابل سماعت ہی نہیں تھی، انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جہاں آرٹیکل 8 کی ذیلی شق تین اے اپلائی ہو وہاں درخواست قابل سماعت تھی، تو اگر اس کیس میں آرٹیکل 184 کی شق تین کا اطلاق نہیں ہو سکتا تو پھر کسی اور کیس میں اطلاق ہو ہی نہیں سکتا۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ہمیشہ آرٹیکل 184 کی شق تین کے اختیار سماعت کو محتاط انداز میں استعمال کرنے کی رائے دی ہے، ملٹری کورٹس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی رائے دی، آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت براہ راست درخواست قابل سماعت تھی، آج برگیڈیئر (ر) فرخ بخت علی کیس پر بھی دلائل دوں گا ۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہا کہ شکر ہے پورا نام تو پتا چلا ہم تو ایف بی علی کیس کے نام سے ہی جانتے تھے۔ اس پر انہوں نے مزید استفسار کیا کہ 21ویں ترمیم کا کیا بنا تھا؟ جس پر ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ 21ویں ترمیم کو دو سال کی توسیع ملی 2019 میں ختم ہو گئی، اس پر جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ 21ویں ترمیم ختم ہونے کے بعد موجودہ کیسز میں کورٹ مارشل کیسے ہوگیا؟
خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ 9اور 10 مئی کے کیسز میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ لاگو کیا گیا، جس پر مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا اس ملک میں احتجاج کرنا جرم ہے؟ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ احتجاج کرنا جرم نہیں، املاک کو نقصان پہنچانا جرم ہے، اہم سوال ہے کہ کورٹ مارشل نہ ہو تو کیا ملزمان آزاد ہوجائیں گے؟ جواب یہ ہے کہ ملزمان آزاد نہیں ہونگے کیونکہ انسداد دہشتگردی کا قانون موجود ہے۔
بعدازاں عدالت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کچھ دیر کیلئے ملتوی کردی۔سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو خواجہ احمد حسین نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ملک عظیم وکیل قائداعظم محمد علی جناح کی کوششوں سے بنا، یہ آئینی بنچ قائداعظم کی تصویر کے نیچے بیٹھا ہوا ہے، ہماری عدلیہ نے ماضی میں ایسے فیصلے کیے جن کے نتائج قوم کو بھگتنا پڑے۔
ان کا کہنا تھا کہ میری استدعا ہے کہ مرکزی فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے اپیلیں خارج کی جائیں، میرے موکل کو 20 ہزار روپے جرمانہ کیا گیا، ہم نے اس حکمنامے کیخلاف نظرثانی بھی دائر کر رکھی ہے، جرمانہ عائد کرنے کا حکمنامہ واپس لیا جائے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ چلیں ہم جرمانہ ڈبل کر دیتے ہیں، یہ بات ہلکے پھلکے انداز میں کی گئی ہے۔
یاد رہے سپریم کورٹ میں‌ملٹری ٹرایل کیس کی سماعت کے دوران جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ 15 دن میں فیصلہ ہوجائے تو ضمانت ہونے نہ ہونے سے کیا ہوگا؟ کیا ملک دشمن جاسوس کیساتھ ساز باز کرنے والے ، کیا دھماکہ کرنے والے اور عام شہری میں کوئی فرق نہیں ہے؟
خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ویسے بھی ہماری درخواست کافی حد تک غیر مؤثر ہو چکی ہے، آئینی بنچ کافی حد تک کیس سن چکا ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے ساتھی ججز سے مشاورت کے بعد خواجہ احمد حسین سے مکالمہ کیا کہ ٹھیک ہے، نظرثانی واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دیتے ہیں۔
بعدازاں آئینی بنچ نے سابق چیف جسٹس پر عائد کیا گیا جرمانے کا حکمنامہ واپس لے لیا، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے متفرق درخواست دائر کی تھی، جس میں 26ویں آئینی ترمیم پر فیصلے تک ملٹری کورٹس کیس پر کارروائی روکنے کی استدعا کی گئی تھی، آئینی بنچ نے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی درخواست تاخیری حربہ قرار دیتے ہوئے 20 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین کے دلائل مکمل ہو گئے، عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی، کل بیرسٹر سلمان اکرم راجہ دلائل کا آغاز کریں گے۔

مزید پڑھیں:  دیر لوئر، کباڑ کے گودام میں اچانک آگ بھڑک اٹھی