وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان تمام مذاہب کیلئے محفوظ ملک ہے،عالمی ہفتہ برائے بین المذاہب ہم آہنگی کے موقع پر پیغام جاری کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آج ہم عالمی برادری کیساتھ مل کر بین المذاہب ہم آہنگی کا ہفتہ منا رہے ہیں ،انہوں نے کہا کہ سماجی ہم آہنگی اور اقدار کی پاسداری پر یقین رکھتے ہیں ،اسلام انصاف ،رحم اور مخلوقات کے احترام کا حکم دیتا ہے، انتہا پسندی اور تفرقہ انگیز بیان بازی سماجی تانے بانے کیلئے خطرہ ہے، انہوں نے کہا کہ دنیا کو عدم برداشت اور تقسیم کے بڑھتے ہوئے چیلنجز کا سامنا ہے، امن اور اتحاد کیلئے اپنے اجتماعی عزم کا اعادہ کرنا ضروری ہے، شہری بھائی چارے کے رشتوں کو مضبوط کرنے کیلئے کردار ادا کریں، امر واقعہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد بانی پاکستان بابائے قوم حضرت قائد اعظم نے اپنے ایک پالیسی بیان میں واضح طور پر کہا تھا کہ اب ہم آزاد ہیں اور ہم میں سے ہر شخص مذہبی حوالوں سے اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کا حق رکھتا ہے، کوئی بھی شخص مسجد، کلیسا ،مندر یاگردوارہ جا کر اپنے اپنے عقائد کے مطابق عبادت کرنے میں آزاد ہوگا، بابائے قوم کے ان فرمودات کی بنیاد پر ملک میں سماجی زندگی اختیار کرنے کیلئے آئین نے بھی عوام کو مذہبی آزادی کا حق دیا ہے اور پاکستان کی اقلیتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ انہیں اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے میں کوئی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے، ہر مذہب اور عقائد سے تعلق کی بناء پر کبھی ملک میں اجتماعی طور پر کسی کو پابندی کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ ایک اسلامی ملک ہونے کے ناطے اکثریت نے اقلیتوں کے عقائد کا ہمیشہ احترام کیا ہے جبکہ بین المذاہب ہم آہنگی میں مسلم اکثریتی آبادی نے ہمیشہ تعاون کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ اسلام میں جس طرح دوسرے مذاہب کے بارے میں رواداری اور برداشت کا درس ورثے میں ملا ہے، اس پر پاکستان میں بھی اس کے حقیقی سپرٹ کے مطابق عمل کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی یہ رویہ جاری و ساری ہے تاہم یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہماری ہمسایہ ریاست میں نہ صرف دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی زندگی مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے سخت مشکلات کا شکار ہے بلکہ خود وہاں کی اکثریتی آبادی کے مذہب میں بھی افراط و تغریط کا شکار اور نشانہ بناتے ہوئے نیچی جاتی کے لوگوں کیخلاف نفرت و حقارت سے کام لیا جاتا ہے جبکہ مسلمانوں ،عیسائیوں کیخلاف آزادی کے بعدسے اب تک جو رویہ اختیار کیا جا رہا ہے اس حوالے سے بھی عالمی سطح پر نوٹس لینا چاہیے، اسی طرح اسرائیل کے انتہا پسند حکمرانوں کی فلسطینی مسلمانوں کیخلاف ظلم و زیادتی پر بھی توجہ دینی چاہیے تاکہ دنیا میں امن قائم ہو سکے۔
