بدقسمتی سے پاکستان کے کسی شعبے میں بھی ڈھنگ کا کام نہیں ہوتا بجائے اس کے کہ ہم سود مند شعبوں سے فائدہ اٹھائیں اور ملک و قوم کے لئے اسے مفید بنائیں الٹا بدعنوانی لوٹ مار اختیارات کے غلط اور ناجائزاستعمال اور بغیر منصوبہ بندی کے دھڑا دھڑ اسی شعبے کے پیچھے پڑ جانا اور بالاخر اس شعبے کو تباہی کی دلدل میں دھکیل کر خود اپنے ہی ہاتھوں پیدا کردہ مسائل سے خود کو مصروف اور عوام کو مشکلات میں گھنٹوں گھنٹوں دھنسا کر تماشا بنانے کا ہے ۔ شمسی توانائی کا شعبہ کس قدر مفید اور کس قدر ضرور ہے جس کا بس چلتا ہے نیٹ میٹرنگ نہ سہی دن کی ضروریات پوری کر سکیں تو سونے پہ سہاگہ کم از کم شدید گرمی میں ایک پنکھا چلانے کے قابل کوئی سہولت حاصل کرسکے یہ بھی غنیمت ہے ہونا تو یہ چاہئے کہ اس ضمن میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ایسی پالیسیاں وضع کی جانیں کہ ہر گھر کو ایک سولر پینل فراہمی یا بلاسود خریداری کے قابل بنایا جائے مگر یہاں کیا ہوا شروع شروع میں ہزاروں روپے کی قیمت والی پلیٹیں منگوائی گئیں پھر اگلی حکومت آئی اور ڈیوٹی کا خاتمہ ہوا تو سولر پینلز سستے ہونے شروع ہوئے اور جب لوگوں نے جیسے تیسے قرض لے کر سولر پینل لگانا شروع کیا تو پتہ چلا کہ ملک میں کوئی پالیسی اور چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے سے اس قدر بڑی تعداد میں سولر پینلز درآمد کئے گئے کہ اگر سارے لگ جائیں تو ملک میں بجلی کی ضرورت پوری ہو اور کسی اور ذریعے سے بجلی کی پیداوار کی ضرورت ہی نہ پڑے بہرحال یہ لگ کہانی ہے اس شعبے کو بھی ڈالروں کی سمگلنگ اور منی لانڈرنگ کے لئے استعمال کیا گیا سینٹ کی ذیلی کمیٹی نے کمرشل بنکوں کے ذریعے دو امپورٹرز کی جانب سے 70 ارب روپے کی انڈر اور اوورانوائسنگ کی تحقیقات پر عدم اطمینان کا ا ظہار کرتے ہوئے 2018ء سے اب تک تمام سولر پینلز کی درآمدات کا مکمل آڈٹ کرنے کا حکم دے دیا ہے ایسا ہوا تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا پردہ نشین بے نقاب ہوں گے مگر اس کی امید اس لئے نہیں کہ اس میں بڑے بڑے ہاتھ ملوث ہیں مختصراً اشرافیہ کے خلاف نہ تو پہلے تحقیقات ہوئی ہیں نہ اب ہوسکے گی صرف دو کمپنیوں نے 2018ء سے 2022ء تک ایک سوچھ ارب روپے کی مشکوک ٹرانزیکشن کیں خود ہی اندازہ لگائیں کہ ان مگرمچھوں کے خلاف کارروائی ہو پائے گی میرے خیال میں نہیں ۔ اس بہتی گنگا میں کس کس نے ہاتھ دھوئے ہوں گے اگر بات یہیں تک ہوتی تو بھی کوئی بات تھی یہاں تو ہر کسی نے دھوئے کیونکہ جو سولر پینلز منگوائے گئے ان کا معیار اس درجے کا نہیں تھا جس کی ضرورت تھی غیر معیاری اور مسترد شدہ مال کے کنٹینروں کے کنٹینر آئے اور دھڑا دھڑ فروخت ہوئے کسی سرکاری ا ہلکار کو ان کی کوالٹی چیک کرنے اور عوام کے حقوق کے تحفظ کے لئے کسی نے زحمت ہی نہ کی
یوں لوٹے عوام اور خوشحال مافیا ہو گئی رہی سہی کسر مہنگے داموں نیٹ میٹرنگ کرنے والوں نے پوری کردی اب نیٹ میٹرنگ ختم کرکے گراس میٹرنگ رائج کرنے کی تیاری ہو رہی ہے مرے کو مار شاہ مدار۔ یہ تو نااہلی کی ایک جھلک تھی لیکن کوئی نئی بات نہیں اس لئے کہ پاکستان میں ہر شعبے کا یہی حال ہے لیکن بجلی کے شعبے میں عوام سے جس طرح کا مذاق کیا گیا اور جس طرح عوام کا استحصال کیاگیا وہ ناقابل برداشت سے بھی بڑھ کر ہے آئی پی پیز کو بجلی کی پیدوار نہ کرنے کے باوجود ادائیگی کے معاہدے ملکی ضرورت سے تقریباً نصف گنا کے قریب اضافی بجلی کا معاہدہ ایک جانب اس بجلی کے بلوں کی وصولی جو کبھی نہ پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی عوام نے استعمال کیا ہوتا ہے دوسری جانب سردی ہو کہ گرمی بجلی کی بدترین لوڈ شیڈنگ و بندش اور مہینے بھر سخت سزا دینے کے بعد بھاری بجلی و گیس بلوں کی صورت میں عوام کے زخموں پر نمک پاشی بندہ کس کس ناانصافی کو روئے اور پیٹے ۔ ان لوگوں سے اس دنیا میں تو حساب ممکن نہیں اس دنیا میں تو پورا پورا حساب ہو گا اور یقینا ہوگا اب چونکہ لوگ جمع پونجی لگا کر قرض لے کر بھاری بجلی بلوں سے نجات کے لئے سولر لگا رہے ہیں تو بھی ان کو برداشت نہیں اس ان کا منصوبہ ہے کہ سولر والی بجلی آٹھ نو
روپے میں لو اور ساٹھ روپے میں یہی بجلی انہی سولر والوں کو بیچو طرفہ تماشا یہ کہ جو بجلی سولر سسٹم لگا کر پیدا کی جارہی ہے اس کا یونٹ بھی صارف خود بنا کر دے دے اور استعمال نہ
کرے رقم وہ لگائے اور بجلی پیدا کرکے واپڈا کو وہی دے اورواپس پچاس روپے فی یونٹ مہنگی خریدے اس قدر سکھا شاہی فیصلے تو رنجیت سنگھ نے بھی نہیں کئے ہوں گے ۔بہانہ بنایا جا رہا ہے کہ سولر پینل سستے ہو گئے وہ تو ہو گئے مگر یہ پینل اس کوالٹی کے نہیں کہ مقررہ یونٹ کی پیداوار دیں سولر پینل سستے ہو گئے تو انورٹر کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے پھر دیگر سامان بھی سستی نہیں مہنگی سے مہنگی ہوئی ہے اس کا حساب نہیں لگایا جاتا سستے پینلز کی لاگت اور ساتھ میں دیگر لوازمات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے حساب برابر پھر نیٹ میٹرنگ بھی مفت تو نہیں ہوتی حساب لگائیں تو شمسی بجلی سستی نہیں مہنگی پڑتی ہے مگر پاور ڈویژن بضد ہے کہ سستی ہے چلیں سستی ہے وہ جو پانی سے بجلی بنتی ہے وہ کس قیمت میں بنتی ہے اور کس ریٹ پر دی جارہی ہے اس کا حساب بھی کوئی تو دے ۔ وہ بجلی جو بجلی چوری ہوتی ہے مفت کی بجلی دی جاتی ہے اس کا بھی تو کوئی حساب کرے عوام کو ملنے والی معمولی سہولت کا تو حساب ہے حکمرانوںاور سرکاری اداروں اور عمال سے کوئی حساب نہیں سولر نظام سے وابستہ لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنا نظام ہائبرڈ کریں اپنی پیدا کردہ بجلی سٹور کرکے استعمال کریں نیٹ میٹرنگ کے وہ جوسینکڑوں اور ہزاروں یونٹ واپڈا کے ذمے ہر سہ ماہی اور سالانہ بقایا چلے آتے ہیں اس کا بھی تو کوئی حساب ہی نہیں مفت کے یونٹ بیچ کر رقم واپڈا والے جیب میں ڈال رہے ہیں اس ملک میں ظلم اور ناانصافی کی حد ہو گئی ہے ۔
