یونیورسٹی ملازمت کے دوران مجھے دنیا دیکھنے کا بار بار موقع ملا ۔ دنیا ہمارے تصورات سے کہیں زیادہ خوبصورت اور دلکش ہے ۔ لیکن ہمارے ہاںدنیا کا تصور دشمن ، کافر، مسلمان ، آزاد خیال وغیرہ ٹیگ کے ساتھ ہوتا ہے ۔ ہم باقی دنیا کو کافر سمجھتے ہیں اور خود کو باعمل مسلمان اور اسی نسبت سے ہماری بیشتر آبادی دنیا جہاں کی خرابیاں ان ممالک سے وابستہ کرلیتی ہے جو دنیا میں ہیں ۔ جبکہ دیکھا جائے تو جتنی خرابیاں اور بے ترتیبی ہمارے ملک میں ہے اتنی شاید ہی کہیں ہو ۔ آج سے نو برس پہلے ایک ٹریننگ کے لیے ہمارے سامنے کچھ ممالک کے نام رکھے گئے جن میں اٹلی کا نام بھی شامل تھا ۔ اور اٹلی میں دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی جس شہر میں تھی اس کا نام دیکھ کر ہم نے فوراً اسی کوچُنا ۔ ٹریننگ تو دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی بھی یونیورسٹی میں ہوسکتی تھی مگر دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی جانا وہاں سے سیکھنے کا تصور ہی اتنا خوش کن تھا کہ باقی دنیا کو ہم بھول گئے ۔ اٹلی دنیا کے تاریخی شہروں کے حوالے سے سب سے اہم ملک ہے ۔ اس ملک میں روم ، وینس ، میلان، نیپلز، ٹورن، جینوا، فلورنس، ویرونہ، کاٹانیہ ، میسنیا، پڈوا، پراٹو ، ٹریسٹی ، بولوگنا اور کل ملا کر ایک سو چالیس سے زیادہ تاریخی شہر ہیں ۔ہر شہر ایک الگ تاریخ رکھتا ہے اور ہر شہر کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے ۔ ہر شہر تعمیرات کا اور فنون لطیفہ کا ایک مکمل جہاں اپنے اندر آباد رکھتا ہے جس کا تصور پاکستان میں بیٹھے ممکن نہیں ہے ۔ بولوگنا شہر جس کی معلوم تاریخ پچیس سو سال پرانی ہے ۔ اس شہر کی آبادی چار لاکھ سے کچھ زیادہ ہے ۔ اس شہر کے اتنے تاریخی حوالے ہیں کہ اگر مورخ لکھنے بیٹھ جائے تو شاید برسوں میں مکمل نہ کرپائے لیکن اس کا سب سے بڑا حوالہ اس شہر کا یونیورسٹی اف بولوگنا ہے ۔ یہ دنیا کی سب سے قدیم یونیورسٹی ہے جس کا باقاعدہ آغاز 1088 عیسوی میں ہوااور اس دن سے آج تک یہ یونیورسٹی درس وتدریس اور تحقیق میں مصروف ہے ۔کچھ لوگ کا خیال ہے خصوصاً مسلمانوں کا کہ جامعہ القارویین(مراکش)اور جامعہ الازہر ( مصر) دنیا کی قدیم یونیورسٹیاں ہیں ۔ ان یونیورسٹیوں کا وجود تو تھا مگر کب سے تھا اس بارے میں حتمی شواہد نہیں ہیں ۔ القارویین ایک مدرسہ کے طور پر کام کرتا رہا اور بہت بعد میں یعنی 1963 میں مراکش کی حکومت نے اس کو بطور یونیورسٹی بنایا ۔ جبکہ الازہر میں دینی تدریس کا باقاعدہ انتظام بارھویں صدی عیسوی سے ملتا ہے ۔ اس سے پہلے یہ سنی مسالک کے ایک مرکز کی حیثیت سے تاریخ کا حصہ ہے ۔ اس لیے دنیا میں مستند ادارے یونیورسٹی اف بولوگنا (اٹلی) کو ہی دنیا کی پہلی باقاعدہ یونیورسٹی مانتے ہیں ۔اس یونیورسٹی کی عمارتیں اب بھی بہت پرانی ہیں ۔ اور اس یونیورسٹی میں اس کا سارا ورثہ محفوظ ہے ۔ یہ یونیورسٹی قدیم و جدید علوم کا مرکز ہے ۔ عیسائی دنیاکی تاریخ اور اور عیسائی مذہب اور فرقوں کے حوالے سے دستاویزات اس یونیورسٹی کا اثاثہ ہیں اور ان تمام قدیم مخطوطوں کو یہاں محفوظ کیا گیا ہے ۔ مجھے چونکہ اتریخت یونیورسٹی جو نیدرلینڈ میں ہے اسے دیکھنے کا مواقع ملا ہے وہ بھی یورپ کی قدیم یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے وہاں بھی عیسائی مذہبی مخطوطے اور ہندوستان سے لے جائے گئے ہزاروں مخطوطے محفوظ کیے گئے ہیں ۔ اتریخت وہ شہر تھا جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی بنائی گئی تھی اور وہاں سے ولندیزوں نے ہندوستان کا بذریعہ سمندر رُخ کیاتھا۔ بولوگنا یونیورسٹی میں ایک لاکھ کے قریب طالب علم ہیں جو اس شہر کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ ہے ۔ اس یونیورسٹی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس سے دنیا کی پہلی خاتون نے بھی تعلیم حاصل کی اور اسے باقاعدہ سند دی گئی ۔ اس لیے کہ سولہویں صدی تک یورپ کی دیگر یونیورسٹیوں میں عورتوں کو داخلہ نہیں دیا جاتا تھا اور نہ انہیں ڈگری کا حقدار سمجھا جاتا تھا ۔اسی یونیورسٹی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس میں سب سے پہلے کسی خاتون کو پروفیسر مقرر کیا گیا ۔یہ باتیں آج عام ہیں کہ مرد اور عورتیں ایک ساتھ تعلیم حاصل کررہی ہیں اور خواتین کو بھی ملازمت کے مواقع دئیے جاتے ہیں لیکن آج سے چند سو برس پہلے اس کا تصور بھی ممکن نہیں تھا ۔ اس دور میں یونیورسٹی اف بولوگنا نے پہل کی اور بہت سارے قدیم روایت کو ترک
کرکے نئے روایات کی داغ بیل ڈالی جو اس کے بعد اس یونیورسٹی سے نکل کر یورپ اور پھر دنیا میں پھیل گئے ۔ اب تو اس یونیورسٹی کے دس سے زیادہ دیگر کیمپس بھی ہیں جو دیگر ممالک میں بھی ہیں ۔ اس یونیورسٹی کانباتاتی باغ اور کے درجنوں میوزیم ،عجائبات کے لاتعداد ذخیرے اس یونیورسٹی کو دنیا کی دیگر یونیورسٹیوں سے الگ کرتی ہیں ۔ جب یورپی یونین کی بنیاد پڑی تو پورے یورپ کے نظام تعلیم کو یکساں کرنے کے لیے اسی شہر میں ماہرین نے سر جوڑے تھے اور اسی بنیاد پر آج بھی یورپی یونین میں رائج نظام کو بولوگنا پراسس کا نام دیا جاتا ہے ۔ یعنی جہاں سے یورپ میں علم کی روشنی پھیلی تھی ایک ہزار برس بعد اسی شہر سے پورے یورپ کا یکسان نظام تعلیم رائج کیا گیا اور نہ صرف یورپ بلکہ دنیا بھر میں یہاں تک کہ پاکستان میں یہ جو چارسالہ بی ایس پروگرام ہے اور جدید یونیورسٹی نظام تعلیم ہے یہ سب بولوگنا پروسس کا نتیجہ اور یورپی یونین کی امداد کا نتیجہ ہے ۔ یہ یونیورسٹی اب بھی اپنی روایات اور معیارات پر کاربند ہے ۔ اس کا مقصد پیسہ کمانا نہیں ہے
بلکہ علم و تحقیق کی ترویج و فروغ ہے ۔ ہم جب اس یونیورسٹی پہنچے تو اس کے سربراہ نے ہمیں ڈنر پر بلایا اور ہمیں خوش آمد ید کہا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اب آپ اس یونیورسٹی کے خاندان کا حصہ ہیں اس خاندان کا حصہ جس نے دنیا کو ڈارک ایجز سے نکالا جس نے قدیم علوم کے ساتھ ساتھ جدید علوم کو پڑھانا ممکن بنایا اور جس خاندان نے دنیا اور علوم کی حقیقی تاریخ کا سفر مسلسل جاری وساری رکھا ۔ اس یونیورسٹی میں گزرے چالیس دنوں نے ہمیں قدیم اور جدید یورپ میںکا سارا فلسفہ عملی طور پر دکھایا اور اس عظیم سائنسی ترقی کا مشاہدہ کروایا جو کسی یونیورسٹی کا اصل کام ہوتا ہے ۔ ان چالیس دنوں میں کسی بھی عیسائی نے ہم سے ہمارے مذہبی معاملات کے بارے میں نہیں پوچھا بلکہ ہمارے کمروں میں جائے نماز اور قرآن مجید کا ایک خوبصورت اور منقش کاغذ پر چھپا نسخہ رکھا ۔ ہمارے کھانوں کا خیال رکھا گیا کہ کوئی حرام چیز خوراک میں شامل نہ ہواور کسی نے بھی ہماری رنگت اور قومیت پر سوال نہیں اٹھایا ۔ ہمارے سخت ترین سوالات کے جوابات نہایت خندہ پیشانی سے دیتے رہے ۔ اور یونیورسٹی کے کسی بھی لائبریری ، میوزیم اور علم کے کسی بھی ذخیرے کو دیکھنے استعمال کرنے پر کوئی پابندی نہیں رکھی ۔ یہاں دنیا بھر سے لوگ تحقیق کرنے آتے ہیں بہت زیادہ تعداد تحقیقی مواد حاصل کرنے آتے ہیں ۔ سب کو یہاں خوش آمدید کہا جاتا ہے اور سالانہ یہ یونیورسٹی سینکڑوں کی تعداد میں اسکالرشس دیتی ہے جس میں سارے اخراجات شامل ہوتے ہیں ۔ اگر آپ کے بچے اس اعلیٰ ترین اور قدیم ترین علمی درسگاہ میں پڑھنا چاہئیں تو وہ باآسانی یہاں اسکالرشپس پر جاسکتے ہیں ۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ تعلیم ہماری منزل ہی نہیں ہے ہم ساری زندگی آوٹ پٹانگ سیاستوں اور گمراہائیوں میں گزاریں گے مگر علم کے سرچشمے تلاش نہیں کریں گے ۔ہماری تاریخ میں جنگ و جدل تو ہے کوئی علمی اور اخلاقی ترقی کا سفر نہیں ہے ۔ایک ایسا سفر جیسا یورپ نے بولوگنا سے شروع کیا تھا اور ابتک جاری وساری ہے۔
