وہی مرغی کی ایک ٹانگ

بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو خط لکھ دیا ہے جس میں انتخابی نتائج 26ویں آئینی ترمیم، قانون کی حکمرانی پی ٹی آئی کے خلاف دہشت گردی کے پرچے، چھاپے اور گولیاں چلانے اورحساس اداروں کے نکات شامل ہیںعمران خان نے آرمی چیف کو خط میں لکھا ہے کہ موجودہ حالات میں پالیسیوں میں تبدیلی وقت کی اہم ضرورت ہے، فوج ملک کی ہے کسی ایک شخص کی نہیں، جب صلح کی باتیں یا اسٹیبلشمنٹ سے معاملات بہتر ہونے کی بات آتی ہے تو حکومت کی نیندیں اڑ جاتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تیزی سے یہ پالیسیاں بدل کر آئین وقانون کے مطابق رکھی جائیں تاکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ختم ہو اور معاشی استحکام کی جانب بڑھا جائے، ملک کے مستقبل کے لئے گزشتہ تین سال سے جاری پالیسیز میں تبدیلی لائی جانی چاہئیں۔ خط کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ موجودہ حکومت کی پالیسیاں درست نہیں اور تحریک انصاف ہی ملک کو ان حالات سے نکال سکتی ہے جس کے لئے اسٹیلشمنٹ کوان سے معاملت کرنی چاہئے حکومتی فیصلوں بشمول حساس اداروں یہاں تک کہ عدلیہ کے معاملات ایسے ہیں جس میں بعض حساس ادارے ہی آرمی چیف کے ماتحت ہیں ان کا کردار اگر قابل احتساب ہے تو کسی حد تک ان کا قبلہ درست کرنے کی شکایت کی گنجائش نکلتی ہے ورنہ اس کی بھی ذمہ داری وزیر اعظم ہی کی ہے جبکہ عدلیہ کے معاملات پر تو ان کی شکایت ہی اس لئے نہیں بنتی کہ وہ عدالت سے سزا یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے مقدمات بھی زیر سماعت ہیں ایسے میں ان کی رائے غیر جانبدارانہ کی کسوٹی پرپوری نہیں اترتی باقی معاملات مکمل طور پر حکومتی اور سیاسی ہیں اس حوالے سے حکومتی مذاکراتی ٹیم سے ہی سلسلہ جنبانی ہی روایت بھی ہے اور دستور بھی ایک جانب سیاسی و حکومتی دائرہ عمل بارے شکایات اور دوسری جانب ان کی ایک غیر متعلقہ فورم اور عہدیدار سے شکایت اپنی جگہ سوالیہ نشان ہے ۔بہرحال تحریک انصاف کے بانی قائد کی حکمت عملی کی تہہ تک پہنچنا ہمارے لئے ضروری نہیں البتہ اس حوالے سے حیرت کا اظہار ضرور کیا جاسکتا ہے کہ سیاستدان ہر بار اپنی داڑھی انہی ہاتھوں کو پیش کرنے میں ذرا نہیں ہچکچاتے جس سے شکایات کا واویلا کر رہے ہوتے ہیں ایک جانب اینٹی اسٹیبلشمنٹ کی علمبرداری اور ساری خرابیوں کی ذمہ دار ان کو ٹھہرانا اور دوسر ی جانب معاملات کو سدھارنے کے لئے ان سے توقعات سیاسی و حکومتی معاملات سے آرمی چیف کا کیا ناتہ اس کی اگر وضاحت سامنے آئے تو باقی معاملات کو سمجھنے میں آسانی ہوگی ایک طرف جہاں ایک سیاسی قائد کے خط میںاصلاح ا حوال کی توقع ظاہر کی جارہی ہے تو دوسری جانب ایک اور دینی سیاسی جماعت کے قائد نے موجودہ حکومت پر اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلنے کا الزام لگاکر تنقید کی ہے ان کا کہنا ہے کہ مقتدرہ قوتوں کے لئے آئین موم کی ناک ہے جدھر چاہیں موڑ دیں ۔ ہمارے تئیں یہی وہ تضادات اور واضح موقف کافقدان ہے جس کے باعث اس امر کا تعین مشکل ہوتا ہے کہ آخر سیاستدانوں کا موقف ہے کیا گو کہ ان کی جانب سے مقتدرہ کو سیاسی و حکومتی معاملات سے علیحدگی اختیار کرنے کی استدعا توبہت ہوتی ہے مگر عملی طور پر بالاخر سیاسی جماعتیں خود ہی مقتدرہ کے کردار کو دعوت دے رہی ہوتی ہیں اور درپردہ معاملت ہی کو مسائل کا حل سمجھتی ہیں یہ کسی ایک جماعت کا سیاسی کردار نہیں بلکہ کم و بیش سیاسی جماعتوں کایہی طرزعمل رہاہے اس طرح کے نیمے دروں نیمے بیرون کی پالیسی میں نہ مقتدرہ پیچھے ہٹ جاتی ہے اور نہ ہی سیاستدان اپنے مسائل کا باہمی حل نکال پاتے ہیںایسے میں کوئی واضح لائحہ عمل اختیار کرنے کا تقاضا یہی ہو گا کہ یا تو مقتدرہ کے باقاعدہ کردار کا تعین کیا جائے یاپھر ان کو آئین و دستورکے مطابق پوری طرح علیحدہ کیا جائے اور سیاستدان خود کو اس قابل ثابت کریں کہ وہ اپنے معاملات کا حل خود نکال بھی سکتے ہوں ا ور ان کا سیاسی نظام پراتنا اعتماد بھی ہو کہ ان کو کسی ثالث اور ضامن کی ضرورت نہ رہے تحریک انصاف کے بانی قائد کے خط کے بعد مقتدرہ کے حوالے سے پالیسی واضح ہو گئی ہے جسے اب تحریک انصاف کے نقادوں کو بھی سمجھ آنی چاہئے ۔اب وقت آگیا ہے کہ سیاستدان خود کو اس قابل ثابت کرنے پر توجہ دیں کہ وہ نہ صرف باہمی مسائل کا حل مل بیٹھ کر نکال سکتے ہیں بلکہ ملک و قوم کو بھی مسائل سے نکالنے میں مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں جب تک سیاستدان اس درجے کی سنجیدگی کے حامل نہیں ہوتے اور باہم مشت و گریبان ہونے کا رویہ ترک نہیں کریں گے اور اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے دوسرے دروازوں پر دستک دینے سے احتراز نہیں کریں گے اس وقت تک ملک میں مستحکم حکومت کا قیام اور عوامی مسائل کے حل کی راہ ہموار ہونا مشکل ہی رہے گا۔

مزید پڑھیں:  قومی ڈائیلاگ کی ضرورت اور اہمیت