پولیو کا پھیلائو

تمام تر مساعی کے باوجود خیبر پختونخوا کو پولیو سے پاک نہ کرنا ہی سنگین مسئلہ نیں بلکہ ہر پولیو مہم کے دوران پولیو مہم پر مامور پولیس اور دیگر عملے کے قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع کا تسلسل اس سے بھی سنگین امر ہے بدقسمتی سے ہر بار ہی اس کا اعادہ ہوتا ہے اور تمام تر کوششوں کے باوجود اس کا تدارک نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے 2025کا پہلا پولیو کیس بھی کے پی سے رپورٹ ہوا ہے پولیو وائرس افغانستان اور پاکستان میں مقامی ہے۔ اگرچہ حکام نے وائرس پرقابوپانے کے لیے کچھ قابل ذکر اقدامات کیے ہیں، لیکن کئی عوامل بشمول پاکستان میں داخل ہونے والے لوگوں کی اسکریننگ کا فقدان، حفظان صحت کے نامساعد حالات، اور حکومت کی حمایت یافتہ کسی بھی چیز پر لوگوں کاکم ہوتااعتمادایسے عوامل ہے جس نے ایسی مہموں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ عسکریت پسند ان مہمات کو اپنے خلاف ایک خفیہ آپریشن کے طور پر دیکھتے ہیں اور یہ عام طور پر بے لوث پولیو ورکرز اور سیکیورٹی ٹیموں کی شہادت کا باعث بنتا ہے۔ان مسائل کے جائزے اور حل کے ساتھ ساتھ اس وقت ہمیں ثقافتی تبدیلی کی بھی ضرورت ہے۔ جن والدین کے بچے وائرس کا شکار ہوئے ہیں انہیں ملک گیر مہم کا چہرہ ہونا چاہیے،ان کا ترجیحا پیغامات ریکارڈ کرنا چاہیے تاکہ والدین کو پولیو ورکرز سے منہ نہ موڑنے کی ترغیب دی جا سکے۔ صحت کے تمام اہلکاروں کو دوستانہ انداز اپنانا چاہیے اور آگاہی سیشنز کا اہتمام کرنا چاہیے جہاں والدین ویکسین کے بارے میں موصول ہونے والی معلومات کی تصدیق کر سکیںاور ان کی غلط فہمیاں دور ہوں سکولوں اور کالجوں میں پولیو آگاہی واک کا انعقاد کیا جانا چاہیے تاکہ ہماری نوجوان نسل کو ویکسین سے متعلق ہچکچاہٹ کے نقصانات سے آگاہ کیا جا سکے، ان کا استعمال کرتے ہوئے وہ اپنے خاندانوں کو اس مہم کو اپنانے اور اس کا فعال حصہ بننے پر راضی کریں۔ بدقسمتی سے، وہ اس بات کو نظر انداز کرتے ہیں کہ ان کے غلط فیصلے سے ان کے بچوں کو تکلیف پہنچتی ہے اور وہ عمر بھر کیلئے معذوری کا شکار بن جاتے ہیں ایسے میں ہمیں ایک متوازن انداز اپنانا ہو گا جہاں سخت اقدامات کے ساتھ ساتھ لوگوں کے روئیے کو بدلنے پر بھی کام کرنا چاہیے۔ اپنے بچوں کے تحفظ کے لیے ہم سب کو اس مہم میں شامل ہونا پڑے گا۔

مزید پڑھیں:  زمینی حقائق پر مبنی افغان پالیسی کی ضرورت