60ء کی دہائی کے نصف اول میں ایک فرانسیسی فلم آئی تھی جس کا نام تھا ” ارما لاڈوس ” اس میں فرانس فلم انڈسٹری کے عالمی شہرت کے فلمسٹار جیک لیمن اور شیرلے میکلین نے مرکزی کردار ادا کئے تھے یہ ایک ہلکی پھلکی مزاحیہ فلم تھی جس میں تقریباً ہر منظر میں ایسی دلچسپی صورتحال سامنے آتی تھی کہ لوگ اپنے قہقہوں پر قابو پانے کی کوشش میں ناکام رہتے تھے ، ہمارے ہاں اس فلم کا نگریزی ورژن نمائش کے لئے پیش کیا گیا تھا یعنی فرانسیسی زبان سے انگریزی میں ڈب کیا گیا تھا ارمالاڈوس کی کہانی ایک ایسی گلی اور وہاں موجود ہوٹل کے گرد گھومتی ہے جس میں قدم قدم پر طوائفیں کھڑی لوگوں کی توجہ اپنی جانب منعطف کرانے کی کوششیں کرتی ہیں جبکہ ہوٹل کے اندر جوا بھی کھلم کھلا کھیلا جاتا ہے اس علاقے میں جو پولیس انسپکٹر پہلے تعینات ہوتا ہے اس کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ جسے ہی وہ ہوٹل کے اندر داخل ہوتا ہے تو اپنی کیپ (ٹوپی) کائونٹر پر الٹی رکھ کر مشروب کا گلاس آرڈر کرتا ہے اور جب تک وہ ”مشروب” سے لطف اندوز ہوتا ہے ، تمام طوائفیں اور جوئے باز باری باری آکر اس کی پولیس والی ٹوپی میں نوٹ ڈالتے جاتے ہیں اور وہ جاتے ہوئے ٹوپی اپنے سر پر رکھتا ہے تو تمام کرنسی نوٹ بھی ساتھ لے جاتا ہے یہ سلسلہ اس پولیس افسر کی تعیناتی تک جاری و ساری رہتا ہے ، اس دوران جیک لیمن کا تبادلہ اس جگہ ہوتا ہے وہ ایک معصوم اور ایماندار شخص ہوتا ہے جب وہ ڈیوٹی پر پہلے روز آتا ہے اور اپنے پیشرو کی طرح اس گلی میں آتا ہے تو جتنی طوائفیں سڑک پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک کھڑی ”کمائی” کی غرض سے موجود ہوتی ہیں تو ایک نئے اور ہونق شخص کو ڈیوٹی پر آتا دیکھ کر اس کا مذاق اڑاتی ہیں پھر وہ ہوٹل میں داخل ہو کر اپنی پولیس کیپ کائونٹر کے قریب میز پر رکھ کر بارئینڈز(بار کے کائونٹر پر”مشروبات” گاہکوں کو فراہم کرنے والے ملازم) سے مشروب طلب کرتا ہے تو حسب عادت نہ صرف گلی میں کھڑی طوائفیں بلکہ بازی لگانے والے جوئے باز بھی اس کی ٹوپی میں کرنسی نوٹ ڈالتے ہوئے اپنے کام میں مصروف ہو جاتے ہیں اسے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ ان جوئے بازوں کو یوں کھلے بندوں جواء کھیلنے سے منع کرتا ہے وہ اس پراس لئے ہنستے ، قہقہے لگاتے اور مذاق اڑاتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں ”نواں آیا ایں سوہنڑیا” کہ بقول شاعر
تم سے پہلے بھی جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقین تھا
یعنی جس طرح وہ پہلے والا بھی آہستہ آہستہ ”راہ” پر آگیا تھا ، یہ بھی دو چار روز رعب جھاڑ کر بالآخر صورتحال سے آشنا ہو کر ”سر تسلیم خم” کر ہی لے گا ۔ مگر انہیں معلوم نہیں تھا کہ جس سے اب کی بار ان جوئے بازوںاور طوائفوں کا واسطہ پڑا ہے یہ کسی لالچ میں آکر رشوت قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہو سکے گا۔ بہرحال فلم کے اندرارمالڈوس والی گلی میں قانون شکنوں اور قانون کے ایک محافظ کے مابین اپنے اپنے موقف پر ڈٹ کر کھڑے ہونے کی یہ جنگ جاری رہتی ہے معاملہ عدالت تک چلا جاتا ہے اور تمام کریمینلز اس پر رشوت لینے کے الزامات لگا کر اس کی زندگی اجیرن کردیتے ہیں ۔ فلم ارمالاڈوس اس لئے یاد آئی کہ محکمہ صحت خیبر پختونخوا نے اپنے ملازمین سے رشوت لینے کے حوالے سے ایک منفرد حلف نامہ تیار کر لیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ ”کرپشن کی تو ا للہ کا عذاب نازل ہو” اگرچہ حیرت اس بات پر ہے کہ کیا”رشوت” صرف صحت کے شعبے میں لی جاتی ہے اور باقی کے شعبے ”دودھ کے دھلے ہوئے” ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ کے اس حوالے سے واضح احکامات کے باوجود کہ رشوت لینے اور دینے والے دونوں جہنمی ہیں ، تقریباً زندگی کے ہر شعبے میں رشوت کی کارستانیاں دیکھی جا سکتی ہیں کہا جاتا ہے کہ زندگی کا ہر شعبہ بدعنوانی ، رشوت اور کرپشن میں لتھڑا ہوا ہے اور اگر کوئی رشوت نہیں لیتا تو یا تو اس کا بس نہیں چلتا یا پھر وہ اتنا بزدل ہے کہ رشوت کے قریب پھٹکتے ہوئے اس پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے ، تو پھر یہ حلف نامہ صرف صحت کے محکمے کے لئے کیوںہے اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر لوگ رشوت لینے پر ”مجبور” کیوں ہو جاتے ہیں؟ ایک جانب بڑے عہدوں پر کام کرنے والوں کی تنخواہیں اور مراعات اس قدر”پرتعیش” کے زمرے میں آتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے جبکہ ان کے مقابلے میں چھوٹی سطح کے ملازمین کو اتنا بھی نہیں ملتا کہ وہ عزت کے ساتھ گزر اوقات کرسکیں اور بقول نصرت صدیقی
کس ضرورت کو دبائوں کسے پورا کر لوں
اپنی تنخواہ کئی بار گنی ہے میں نے
اس لئے اگر وہ اپنی محرومیوں کی وجہ سے رشوت لیتے ہیں تو بات سمجھ میں آتی تو ہے مگر اس کو پھر بھی درست قرار نہیں دیا جا سکتا تاہم حیرت تو اس بات پر ہے کہ جن کو ہر قسم کی سہولیات قابل رشک تنخواہیں اور ہر آسائش نصیب ہے ان کی نیت”کیوں نہیں بھرتی؟ اور وہ اپنے اپنے منصب کی مناسبت سے رشوت وصول کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ اب یہ جو محکمہ صحت والوں نے ”کرپشن کی تو اللہ کا عذاب نازل ہو” والا حلف نامہ تیار کرنے کا سوچا ہے تو قانوناً ، اصولاً اور اخلاقاً یہ بہت عمدہ کاوش ہے تاہم اگر فلم ارمائڈوس کی طرح ”ٹوپی میں خود بخود ہی مینہ برستا ہے” تو بندہ کیا کر سکتا ہے ، خاموشی سے ”نوٹوں سے بھری ٹوپی” سر پر رکھ کر گھر کی راہ لے گا یعنی بقول شاعر
ہائے لوگوں کی کرمفرمائیاں
تہمتیں ، بدنامیاں ، رسوائیاں
زندگی شاید اسی کا نام ہے
دوریاں ، مجبوریاں ، تنہائیاں
سوشل میڈیا پر وائرل ایک پوسٹ میں امیر تیمور کا قصہ بیان کیا گیا ہے جس میں انہوں نے گڈ گورننس کے اصول بتاتے ہوئے چوری ، رشوت ستانی کی روک تھام کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہوں نے چوری روکنے کے لئے ایک طریقہ ایجاد کیا جو بعد کے زمانوں کے حکمرانوں کے لئے مشعل راہ بن سکتا ہے امیر تیمور جس علاقے میں چوری کی واردات ہوتی وہاں کے داروغہ یاکوتوال کے ہاتھ کٹوا دیتا اس نے اپنی سوانح عمری میں لکھا کہ جب تک کوئی داروغہ چور کا ہمدرد نہ ہو یا اپنے کام میں غفلت نہ کرے تو اس وقت تک وہاں واردات نہیں ہوسکتی ، امیر تیمور کے اس نظریئے پر غور کیا جائے تو اسی کلئے کو رشوت کے خلاف بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ورنہ صورتحال ایک بھارتی فلم کے اس منظر کی طرح ہو سکتی ہے جس میں سنجے دت ایک تھانے میں آکر مختلف النوع چوریوں میں تھانے کے ریٹ کے بارے میں پوچھتا ہے اور موٹر سائیکل ، بٹوہ وغیرہ وغیرہ چوری کے عوض تھانیدار کو مقررہ رقم کی ادائیگی پر وہاں وارداتوں کی اجازت لیتا ہے جبکہ جاتے جاتے تھانیدار کی جیب سے بٹوہ اڑا کر اس پر بھی چھ سو روپے دے کر چلا جاتا ہے گویا جب تک قانون کے رکھوالے چوروں ، اچکوں وغیرہ کی پشت پناہی سے ہاتھ نہ کھینچ لیں وارداتیں رک ہی نہیں سکتیں ، یہی صورتحال ”سرکاری” اداروں ، محکموں ، دفاتر وغیرہ کی ہے اگر رشوت ستانی اوپر سے نیچے کی سطح تک نہ ہو تو ”کرپشن کی تو اللہ کاعذاب نازل ہو” کے حلف نامے کی ضرورت ہی نہ پڑے اب اگر اس حوالے سے مختلف محکموں میں مبینہ رشوت خوری کی تفصیل معلوم کی جائے تو آنکھیں حیرت سے پھیل سکتی ہیں۔ اکبر سرحد مرزا محمود سرحدی نے لگ بھگ سات دہائیاں پہلے یونہی تو نہیں کہا تھا کہ
حقیقت کی تجھ کو خبر ہی نہیں ہے
نہ جا ان کے ظاہر پہ میرے مربی
کمائی پہ رشوت کی اکثر بنے ہیں
وہ گھر جن پہ لکھا ہے ”من فضل ربی”
