بلدیاتی اداروں کے ساتھ زیادتی

صوبہ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی نمائندوں نے اختیارات اور فنڈز کی عدم فراہمی پرایک بار پھرسڑکوں پرنکلنے کا اعلان کرتے ہوئے احتجاجی مظاہروں کا پروگرام بنا لیا ہے امر واقعہ یہ ہے کہ جب سے ملک میں بلدیاتی نظام کو ایک بار پھر فعال بنانے کی کوششیں کی گئی ہے صوبوں کی منتخب حکومتیں اس نظام کو اس کی روح کے مطابق چلن کی راہ میں بوجوہ رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہیں ، اس صورتحال کی ابتداء اس وقت ہوئی جب آمرمطلق جنرل ضیاء الحق نے ملک میں غیر جماعتی بنیادوںپرقومی اور صوبائی انتخابات کی بنیاد رکھتے ہوئے ان ایوانوں کے جملہ ممبران کو سیاسی رشوت کے طور پرترقیاتی فنڈزسے نوازنے اور انہیں قانون سازی سے بہت نیچے لا کر ”بلدیاتی نمائندوں” کی سطح پر کھڑا کیا ، اس کے بعد تمام ایوانوں کے منتخب نمائندوں کے نزدیک ان ترقیاتی فنڈز کی اہمیت روز بروز بڑھتی چلی گئی اور یہ سلسلہ اگرچہ ضیاء الحق کے ایک فضائی حادثے میں دنیا سے رخصت ہونے کے بعد جماعتی بنیادوں پر انتخابات میں پیپلز پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد پہلی خاتون وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی جانب سے ان فنڈز کو ختم کرنے تک جاری رہا مگر وہ بھی بہ امر مجبوری اور ممبران پارلیمنٹ کے دبائو کے تحت اس پابندی کو برقرار نہ رکھ سکیں یوں یہ ترقیاتی فنڈز دوبارہ جاری کر دیئے گئے جبکہ بعد میں بلدیاتی اداروں کوناکام بنانے کے لئے تمام صوبائی حکومتوں نے اس میں کردار ادا کیا مگر سپریم کورٹ میں شنوائی کے دوران بلدیاتی نظام کی بحالی کے بعد بلدیاتی انتخابات تو کرادیئے جاتے ہیں البتہ فنڈز کی فراہمی میں صوبائی حکومتیں جو مشکلات پیدا کرتی ہیں ان سے یہ ادارے عملاً ”ناکارہ” ہو کر رہ جاتے ہیں خیبر پختونخوا میں بلدیاتی ا داروں کوفنڈز تب دیئے جاتے ہیں جب ان اداروں میں صوبائی سطح پر برسر اقتدارحکومت کی جماعت سے تعلق رکھنے الوں کی اکثریت ہو دوسری صورت میں فنڈز کی فراہمی مسئلہ رہتا ہے اس وقت بھی صوبے بھرمیں بلدیاتی اداروں میں تحریک انصاف کے ممبران اقلیت میں بتائے جاتے ہیں اور غالباً یہی وہ مسئلہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کو فنڈز کی فراہمی میں آسانیوں کا فقدان ہے ہم سمجھتے ہیں یہ بہت بڑی زیادتی ہے اگر بلدیاتی اداروں کو فنڈز نہیں دینے تو اس نظام کو ہی سرے سے ختم کرنے کے لئے قانون سازی کی جائے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔

مزید پڑھیں:  لاکھوں لگائو ایک چرانا نگاہ کا