رمضان پیکیج اور مہنگائی میں کمی؟

وزیراعظم شہباز شریف نے اس بارماہ رمضان میں یوٹیلٹی سٹورز کے بغیر ہی رمضان پیکج لانے کا اعلان کیاہے انہوں نے کہا کہ مہنگائی 9 سال کی کم ترین سطح پر ہے ، جنوری میں مہنگائی کی سطح 24فیصد پر آچکی ہے وزیر اعظم نے کہا کہ گزشتہ سال رمضان میں بے پناہ شکایات تھیں ، اس بار مائنس یوٹیلٹی سٹورز رمضان پیکج لانے کی ہدایت کی ہے تاکہ کرپشن کو روکا جا سکے ، اس کے لئے وزارت فوڈسیکورٹی کوذمہ داری دیدی ہے جہاں تک حکومتی دعوئوں کاتعلق ہے کہ مہنگائی نو سال کی کم ترین سطح پر ہے تو اس دعوے کو مکمل طور پردرست قرار دینے میں شکوک و شبہات کو خارج ازمکان قرار نہیں دیا جا سکتا اس لئے کہ وزیر اعظم کو تو متعلقہ وزارتوں اور محکموں نے جواعدادو شمار فراہم کی ہونگی انہوںنے انہی کو سامنے رکھ کر درست مان کر اعلان تو کردیا ہے مگر انتہائی ادب کے ساتھ گزارش کرنے دیجئے کہ برسر زمین حقائق ان حکومتی دعوئوں کی تصدیق نہیں کر سکتے اعداد و شمار کاگورکھ دھندہ ہی دراصل وہ مسئلہ ہے جس میں ایک ارب پتی اور غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والوں کی آمدن کا ا وسط نکال کر آمدن کا تعین بہت آسان ہے اور اعداد و شمارکی لاٹھی سب کو ایک ہی کلیئے کے تحت ہانکتے ہوئے ان کی اوسط آمدنی کا تعین تو ضرور کرتی ہے جبکہ تلخ حقائق ان کے برعکس ہوتے ہیں ، امیر ترین آدمی لاکھوں کروڑوں کماتے ہوئے بھی اوسط کے حوالے سے غربت ، بیروزگاری اور بھوک کا سامنا کرنے والے عوام کے برابر(اوسط کی کرشمہ کاری) کمائی کرتا دکھایاجاتا ہے ،یہی صورتحال مہنگائی کی شرح کے تعین کے حوالے سے گزشتہ نو سال کی اوسط مہنگائی میں کمی کی نشاندہی ضرور کرتی ہے مگر مارکیٹوں اور بازاروں میں آج بھی جوصورتحال ہے اور اس کے عام غریب آدمی پر پڑنے والے اثرات ان کے لئے کن مشکلات کا باعث ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی صورتحال نہیں ہے کہ لوگ تو روزانہ کے حساب سے مہنگی اشیاء خریدنے پر مجبور ہیں ، زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ابھی تین چاردن پہلے چینی کے نرخوں میں اچانک تقریباً 30 روپے کلو اضافے سے جو صورتحال جنم لے چکی ہے اس کے سدباب کے لئے حکومت کے متعلقہ ادارے ، محکمے اور ان میں بھاری تنخواہوںپر کام کرنے والے حکام کیاکر رہے ہیں ؟واپس گندم او رچینی برآمد کرنے کے اجازت نامے حاصل کرکے بار دگر اپنی تجوریاں بھرتے اور عوام کی چمڑی اتارنے کے لئے ان پر مہنگائی مسلط کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں ، جس سے مہنگائی کم ہونے کا نام نہیں لیتی ، اس کے اثرات دیگر شعبوں پربھی پڑتے ہیں اس کے باوجود اگر وزیر اعظم کی زبانی مہنگائی کی شرح میں کمی کے دعوے سامنے لائے جاتے ہیں تو ان دعوئوں کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا کیونکہ عوام تو ہر چیزاسی طرح مہنگے داموں خریدنے پرہی مجبور ہیں ۔ اب رمضان پیکج کے حوالے سے بقول وزیر اعظم نئی پالیسی پر عمل درآمد کا جو دعویٰ کیا جارہا ہے ممکن ہے اس سے عوام کو ریلیف ملنے کے امکانات روشن ہوسکیں تاہم جب تک اس پالیسی کی مکمل تفصیل سامنے نہ آئے اس پر مثبت یا منفی تبصرہ ممکن نہیں ہے ، ا لبتہ وزیر اعظم کی اس بات میں کسی شک وشبہے کی گنجائش نہیں ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کی بنیاد ہی اس مقصد کے لئے رکھی گئی تھی کہ غریب عوام کو عام مارکیٹ سے نسبتاً سستی اشیاء فراہم کرکے ان کی مشکل دور کی جائے ، اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ا بتدائی چند برسوں میں اس ادارے کے مقاصد پر خلوص نیت سے عملدرآمد کیا گیا اور مارکیٹ یامنڈیوں سے اجناس خرید کر ان پرسبسڈی دی جاتی رہی یوں عام لوگ بھی اپنے اپنے گھروں کے قریب واقع ان سٹورز سے رجوع کرتے رہے مگر بعدمیں بدعنوانی نے اس میں بھی ا پنی جڑیں مضبوط کرتے ہوئے ان سٹورز کے مقاصد کو دفن کردیا بڑے بڑے عہدوں پر متمکن اہم ملازمین نے بڑی منڈیوں سے ناقص اشیاء خرید کر (چنے ، دالوں ،چاولوں وغیرہ میں کنکر اور دیگر اشیاء کی ملاوٹ) کرکے عوام کو فروخت کرنے سے جیبیں بھریں چینی کی قلت کے دنوں میں جس طرح عملے نے ملی بھگت سے ٹرکوں کے ٹرک بازار میں فروخت کئے جبکہ عام لوگ شدید گرمی میں لمبی قطاریں لگا کربھی بہ مشکل دو چار کلو چینی کے ساتھ دیگر غیر متعلقہ اشیاء اور ضرورت نہ ہوتے ہوئے بھی خریدنے پرمجبور کئے جاتے رہے ، یوں اوپر سے نیچے تک اس ادارے پر مبینہ طور پر ایک کرپٹ اوربدعنوان مافیا قابض ہوتا چلاگیا اس لئے عوامی شکایات میں اضافے کی وجہ سے یہ ادارہ ملازمین کے لئے ذاتی منفعت کا باعث توبنا رہا مگرعوام کو اس سے کوئی فائدہ ملنا تقریباً ناممکنات میں سے رہا، اب جبکہ رمضان کے مہینے میں حکومت نے بغیر یوٹیلٹی سٹورز کے رمضان پیکج کا پروگرام بنا لیا ہے تو دیکھتے ہیں کہ حکومت غریب عوام کو کیسے سہولتیں فراہم کرتی ہے۔

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات کے مسئلے سے پہلو تہی