ملک کی پارلیمنٹ کے مختلف اداروں یعنی سینیٹ ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے اجلاسوں پر قومی خزانے سے ہر سال اربوں روپے کے فنڈز خرچ کئے جاتے ہیں جبکہ ان تمام اداروں کا بنیادی مقصد ملک میں آئین و قانون سازی سے ملکی معاملات چلانا اور عوام کے مفادات کے لئے ایسے اقدام اٹھانا ہوتا ہے جن سے ملک کو آگے بڑھانے میں مدد ملتی رہے ، بدقسمتی سے گزشتہ کئی برس سے ان اداروں کے منتخب اراکین اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجائے دیگر عوامل پر توجہ ضرور مرکوز رکھتے ہیں تاہم بعض اوقات اہم آئینی اور قانونی معاملات میں اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے یاتو صرف حاضری لگا کر ایوان ہائے سے نکل جاتے ہیں یا پھر سرے سے حاضری ہی نہیں دیتے ، البتہ ذاتی مفادات کے حصول کیلئے وہ ہمہ وقت رابطے استوار رکھتے ہیں ، اس حوالے سے ابھی حال ہی میں بعض ایوانوں میں ممبران کی تنخواہوں او ر مراعات میں اضافے کیلئے کیا(آئیز) اور کیا(نونز)سب ایک پیج پر آکر ان مراعات کی یک زبان ہو کر م نظوری کی خبریں پوری قوم نے سن لی ہیں جبکہ اب وفاقی وزراء کی تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے بھی خبریں آرہی ہیں اور ممکن ہے کہ اس پر بھی جلد از جلد منظوری کاعمل مکمل کیا جائے ، جبکہ اس کے علی الرغم جب کسی ایوان میں کوئی ممبر کورم کی نشاندہی کرتاہے تو اسے طنز و تشیغ کانشانہ بنادیا جاتا ہے گزشتہ روز خیبر پختونخوا اسمبلی میں صرف اور صرف 18ارکان کے ساتھ قانون سازی کا جو نیا ریکارڈ قائم کیا گیا ہے اگرچہ یہ کوئی نئی بات نہیں کہ ماضی میں مختلف ایوان ہائے میں پہلے بھی ایسی حرکات ریکارڈ کا حصہ ہیں ، یوں صوبائی اسمبلی میں ارکان کی کم تعداد کے باوجود نہایت جلد بازی میں ویسٹ پاکستان سول کورٹس ترمیمی بل 2025ء پاس کرانے کے دوران جب کورم کی نشاندہی کی گئی تو ڈپٹی سپیکر نے جو اجلاس کی صدارت کر رہے تھے طنزیہ کہا کہ بعض ممبران صرف کورم کی نشاندہی کیلئے اسمبلی آتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ یہ رویہ پارلیمانی روایات کے مطابق نہیں ہے پہلے تو حکومت کی ذمہ داری تھی کہ اگر اسے کوئی قانون سازی کرنی ہے تو اس کیلئے کورم پورا کرنا چاہئے تھا مگر حکومت اسمبلی میں اکثریت کے زعم میںمبتلا ہو کر اگر اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتی اور اس سے پہلو تہی کرتی ہے تو کسی بھی ممبر کی جانب سے کورم کی نشاندہی پر اجلاس کی صدارت کرنے والے سپیکر ، ڈپٹی سپیکر یاپھر دیگر کسی بھی شخص کو طنز کرنے سے پہلے دیکھنا چاہئے کہ اس کا اپنا طرز عمل کیا ہے اب صرف 18ممبران کے ساتھ عجلت میں ہوئی قانون سازی کو آئین کے تحت کیا سمجھا جائے گا؟۔
