پانی کے بغیر زندگی کا تصور نا ممکن ہے، پانی زندگی ہے اور ہر جاندار کی اہم ضرورت ہے۔ انسانی زندگی کا دارومدار ہمیشہ سے زمین اورآبی ذرائع پرمنحصر رہا ہے۔انسانی تہذیبوں کی ابتدا ہی ندی کناروں سے ہوئی۔ ہم ضروریات زندگی کے لئے وہی پانی استعمال کرتے ہیں جو آلودگی سے پاک صاف ہو۔ پانی کا کوئی رنگ، بُویا مزہ نہیں،یہ ایک آفاقی محلول ہے۔ جب پانی میں ضررر ساں چیزیں حل ہو جاتی ہیں تو وہ آلودہ ہو جاتا ہے یعنی پانی کی طبعی، کیمیائی یا حیاتیاتی خواص میں وہ تبدیلی جس کا استعمال نقصان دہ ہو آبی آلودگی کہلاتا ہے۔ آبی آلودگی کی اہم وجوہات میں پیٹرول اور اس سے متعلقہ اشیا جیسے تیل کے چشمے، صنعتی فضلہ، زیر زمین معدنیات، انسانی فضلہ سے بہنے والی نالیاں، زرعی فصل میں استعمال ہونے والی کیڑامار دوائیں، صابن و ڈٹرجنٹ اور انسانوں کا استعمال شدہ پانی ہے۔کیمیائی کارخانوں ،کپڑے کی مِلوںاورریفائنری سے نکلنے والے صنعتی فضلہ اور تھر مل پلانٹس سے نکلنے والی راکھ نے پانی کے ساتھ فضا اور زمین کو بھی آلودہ کیا ہے۔ ایک عرصہ قبل جس زمین سے لوگوں کو پینے کا صاف پانی مہیا ہوتا وہاں وہ اب آلودہ ہو کر اوپر آنے لگا ہے۔یہ عام مشاہدہ ہے کہ پانی گھر کی نالی سے نالوں میںپھر چھوٹی ندیوں سے بڑی ندیوں میں اور پھر دریاؤں سے سمندر میں مل کر کھارا ہو جاتا ہے۔ اسی پانی میں اب طرح طرح کی گندگیاں، کار خانوں کا مکمل آلودہ پانی، زہریلی دوائیں، کھیتوں میں پھینکی گئی کھاد، کیڑے مکوڑے مارنے والی دوائیں، جوہری اورنیو کلیائی کچرے مل رہے ہیں جو ہمارے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔ ماحولیاتی توازن پر اس کا بھی اثر پڑ رہا ہے ۔صاف پانی کا وجود انسانی زندگی کی بقا کے لیے نہایت ہی اہم چیزوں میں سے ایک ہے۔ اب پانی کی کمی پہ ہر ایک یہی سوچ رہا ہے کہ ہمارے سیارے پر پینے کے لئے کتنا پانی دستیاب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مستقبل میں تیسری عالمی جنگ پانی کے مسائل پر ہوگی۔ اس کی ابتدائی جھلکیاں ہمیں اپنے ملک کے صوبوں اور پڑوسی ممالک کے درمیان صاف نظر آرہی ہیں۔سوال یہ ہے کہ اب کیا کیا جائے؟ پانی کی تقسیم پر ہونے والے جھگڑوں پر کس طرح قابو پایا جاسکتا ہے؟ کس طرح ہم ماحول کو محفوظ رکھ سکتے ہیں؟ پانی کو سمندر میں جانے سے کیسے روکا جائے تاکہ وہ زمین میں جذب ہوسکے؟ زیادہ پانی والے علاقوں کو کم پانی والوں سے کس طرح جوڑیں، ندیوں کو آپس میں کیسے جوڑیں،زمین سے کم پانی نکال کر سب کی ضرورت کس طرح پوری کریں۔ ضرور ت اس بات کی ہے کہ جہاں پانی کی سطح تیزی سے نیچے جا رہی ہووہاں سے پانی نکالنا کم کریں یا بند کریں۔ آبی مسائل کے حوالے سے ہمیشہ سیمینار ہوئے اور مُلک کے نمائندہ انجنئیر صاحبان نے پانی کے مسائل حل کرنے کی منصوبہ بندی پیش کی، واپڈا کے ماہرین اپنے پیشہ وارانہ تجربات کی وجہ سے پہچان رکھتے ہیں ۔ اہل اقتدار اور اربابِ اختیار کو چاہیے کہ وہ ان ماہرین کی تجاویز کو اہمیت دیتے ہوئے فوری اقدامات کریں۔ مُلک کی آبی پالیسی اور پانی کے قوانین کو ان ماہرین کی رائے کے پیش نظر مرتب کیا جائے۔ مُلک میں جاری آبی منصوبوں کے لیے فنڈ کی فراہمی اور عوامی ضروریات کے مطابق نئے منصوبوں کی منظوری کو یقینی بنایا جائے۔ شہروں میں پانی کی نکاسی کے مسائل اور صنعتی آلودگی سے صاف پانی اور ماحول کو تحفظ دینے پر خصوصی توجہ کے ساتھ ساتھ پانی بچاؤ کا عوامی شعور پیدا کرنے کی بڑی ضرورت ہے۔ دانشوروں کا یہ مشورہ ہے کہ اگر پانی دوڑرہا ہو تو اسے صرف چلنے دو، اگر چل رہاہے تو پھر اسے مناسب جگہ پہ روک دو،اگر رکا ہوا ہے یا بیٹھا ہے تو استعمال کرنے کے بعد اسے زمین میں سلا دو اب ان مشوروں پر نصف بھی عمل کیا جائے تب بھی ہم آنے والی نسلوں کے سامنے شرمندہ نہیں ہو ں گے۔انسان نے تیز رفتار ترقی اور زندگی میں عیش وآرام کی خاطر ماحول بھی آلودہ کر دیا ہے۔ عصر حاضر میں ماحول ایک اہم سنجیدہ اور پیچیدہ مسئلہ بن گیا ہے۔آبی ، فضائی اور زمینی آلودگی نے ہماری حیات اور ماحول کا توازن بگاڑدیا ہے۔ زمین کا درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے، مٹی کی اپنی زرخیزی کم ہوتی جا رہی ہے،ہوا لطیف سے کثیف ہو رہی ہے اور دریا و سمندر بّری طرح آلودہ ہوتے جا رہے ہیں۔ ان تمام خطرات اور خدشات سے نمٹنے کے لیے سماج اور نئی نسل میں ماحولیاتی بیداری کے لیے انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری کا احساس بے حد ضروری ہے۔ ماحول کی خرابی اکثر اپنے اطراف کی فطری اشیاکی تخریب کا نتیجہ ہوتی ہے۔ آج انہی فطری ذرائع کی حفاظت کے متعلق ہر طرف شور برپا ہے۔ اس طرح کی بیداری اور سوچ و فکر کو صرف ماحولیاتی تعلیم اور سماجی تربیت کے ذریعے ہی فروغ دیا جا سکتا ہے۔دنیا کے تقریبا ًتمام ممالک ماحولیاتی مسائل سے نبرد آزما ہیں لیکن ہمار ے ہاں ان مسائل پہ قابو پانے میں سنجیدگی دکھائی نہیں دیتی ۔ ماحولیاتی مسائل ہر فرد کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانا چاہتے ہیں ۔ہر طبقے کا یہ فرض بن گیا ہے کہ اب وہ اپنے ماحول کی حفاظت کرے اور حکومتی سرپرستی یقیناً وقت کا تقاضا ہے۔
