آج تک ہوں فقط فریب خیال میں

ایک جانب تو نمازیںپڑھنے، صدقہ خیرات کرنے، حج و عمرہ کرنے اور تبلیغ کرنے میں دنیا بھر میں ہم پہلے درجے پر ہیں اور دوسری جانب انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہر اخلاقی برائی پوری طرح سے ہمارے اندر سرایت کر چکی ہے، وہ ایک ایک برائی کہ جس کی وجہ سے اللہ پاک نے پوری پوری قوم تباہ کر دی تھی آج وہ سب برائیاں ہمارے اندر موجود ہیں، یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اخلاقی بگاڑ آج ہماری زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہوچکا ہے، امانت، دیانت، صدق، عدل ، ایفاے عہد، فرض شناسی اور ان جیسی دیگر اعلیٰ اقدار کمزورپڑتی جارہی ہیں، بدعنوانی ناسور کی طرح معاشرے کے ہر طبقے میں پھیلی ہوئی ہے، ظلم و ناانصافی کا دور دورہ ہے، لوگ قومی درد اور اجتماعی خیر و شر کی فکر سے خالی اوراپنی ذات اور مفادات کے اسیر ہوچکے ہیں ، پوری دنیا میں سب سے زیادہ جھوٹ بولنے والے ہم ہیں، اور یہ وہ صورت حال ہے جس پر ہر درد دل رکھنے والا انسان پریشان ہے، ہر اعتبار سے ہمارا معاشرہ روبہ زوال ہے اکثر ادارے اندر سے کھوکھلے ہو چکے ہیں، معاشرہ اندر سے مکمل بوسیدہ ہوچکا ہے، آج ہمارے معاشرے کی حالت یہ ہے جیسے بظاہر دروازے کی لکڑی اپنے رنگ و روغن کے ساتھ خوبصورت اور اصل حالت میں نظر آرہی ہے مگر دیمک نے اسے اندر سے کھا کر مکمل کھوکھلا کر دیا ہے اسے ایک زوردار جھٹکا لگے تو بوسیدہ دروازہ لکڑی بھوسے کی مانند نیچے آ گرے گا، یوں تو چھوٹے بڑے سب ہی اس دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں لیکن اس کا اصل شکار ہماری نوجوان نسل ہے، پاکستان میں، جو طبقہ سب سے زیادہ ذہنی خلفشار کا شکار ہے، وہ نوجوانوں لڑکوں اور لڑکیوں پر مشتمل ہے، دیگر اخلاقی برائیوں کے ساتھ ساتھ نشہ کرنے والے لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد بھی دن بدن بڑھ رہی ہے، اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا قریباً چونسٹھ فیصد تیس سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ان میں سے کم و بیش تین کروڑ نوجوان بے روزگار ہیں، یہ بے روزگار نوجوان پاکستانی معاشرے کے لیے ٹائم بم جیسی حیثیت رکھتے ہیں، کیونکہ یہی فارغ بچے بڑی آسانی سے غیر اخلاقی سرگرمیوں کا شکار ہو جاتے ہیں، پاکستانی نوجوان نسل میں موجود جرائم میں سب سے زیادہ منشیات کی خرید وفروخت اور استعمال شامل ہیں،اور آئس جیسی لعنت کا استعمال سب سے زیادہ پاکستان کی جامعات میں ہو رہا ہے، ایک اندازے کے مطابق قریباً چالیس فیصد نوجوان، جن میں پندرہ سے تیس سال تک کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں، نشے کی لت میں مبتلا ہیں، قریباً بیس فیصد نوجوان پڑھائی کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے سکون آور نشے کا استعمال کرتے ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے معروف تعلیمی اداروں میں بھی منشیات کی خریدو فروخت عام بات بن چکی ہے اور بہت سے خطرناک جرم صرف اس نشے کی خرید کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں، مقامی ذہنی صحت سروے کے مطابق سب سے زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار نوجوان آبادی ہے، جو کہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کہیں نہ کہیں تو معاملات ہاتھ سے نکل رہے ہیں اور ہم کسی بھی طرح سے نہ مسائل کا، نہ ہی ان کی شدت کا ، نہ ہی ان کے اسباب اور نہ ہی ان کے تدارک کا کوئی ادارک رکھتے ہیں، ان نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس فراغت بہت ہے،کرنے کو کچھ نہیں کوئی تعمیری سوچ نہیں، تعلیم اور روزگار کے مواقع کم ہیں، ان کی تعلیمی اور معاشی ناکامیاں انہیں مایوس اور نا امید کر دیتی ہیں، حوصلے پست ہو جاتے ہیں اور اب وہ محنت کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے، نفسانی خواہشات اور شیطانی وسوسے ان کو گھیر لیتے ہیں، یوں منفی سوچوں کے باعث اپنی ذمہ داریوں اور اسلام سے دور ہو جاتے ہیں، اس سب کے جہاں دیگر کئی اسباب ہیں اس میں سے ایک اہم سبب اس نوجوان نسل اور ان کے بڑوں کے درمیان کی دوری ہے، اور اس دوری کی وجہ ماں باپ، اساتذہ اور بزرگوں کی جانب سے بے جا تنقید ہے، ان کے بڑے انہیں اپنی سوچ اور اپنے زمانے کے حوالے سے دیکھتے ہیں پرکھتے ہیں انہیں اپنی بات کہنے اور منوانے کا موقعہ نہیں دیا جاتا، ان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، نہ ان کی بات سنتے ہیں اور نہ ان کے حالات جاننے کی کوشش کرتے ہیں، اس سے ان نوجوانوں کی پریشانی اور ذہنی انتشار میں مزید اضافہ ہوتا ہے، اور یہ اپنے رشتوں سے دور ہوکر خود ہی اچھے برے فیصلے کرتے ہیں اور ساری عمر بھٹکتے رہتے ہیں، اور اب اس نوجوان نسل کو جس بڑے اور خطرناک مسئلے کا سامنا ہے وہ سوشل میڈیا ہے، سوشل میڈیا ایک ایسا نشہ بن چکا ہے، جس کے نہ ملنے پر آج کا نوجوان شدید ذہنی دباؤ اور پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے، نہ کھانے پینے کا ہوش، نہ اپنی تعلیم کی فکر، نہ اپنی صحت کی پرواہ،یہ نوجوان نسل اپنے پرائے سب سے کٹ کر سارا سارا دن اور ساری ساری رات سوشل میڈیا کے نشے میں دھت رہتی ہے، یہ نشہ اس نسل کو تنہائی کا عادی بنا رہا ہے اور یہی تنہائی اسے مختلف برائیوں کی طرف راغب کر تی ہے، آئے روز اخبارات اور سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی اخلاقی بے راہ روی کی خبریں سامنے آرہی ہیں، کوئی دن نہیں کہ اس طرح کی بھیانک خبریں پڑھنے کو نہ ملیں جس میں نوجوان نسل کی اخلاقی بے راہ روی کی داستانیں پڑھ کر رونگٹھے کھڑے ہو جاتے ہیں، خوف آتا ہے کہ ہم کدھر جا رہے ہیں، مجھ سے اکثر لوگ اپنے مسائل سے متعلق سوالات پوچھتے ہیں، اپنی ناقص معلومات کی روشنی میں کچھ نہ کچھ راہنمائی کر دیتا ہوں، جو سوال اور جو مسئلہ کہ جس کی وجہ سے آج کے والدین بہت پریشان ہیں وہ ان کی اولادوں کا یہ سمجھنا ہے کہ ان کو محبت ہو گئی ہے اور اب ان کی شادی کروائی جائے، اور اس میں اکثریت پندرہ سال سے لے کر پچیس سال تک کے بچوں کی ہے، بچے والدین کو دھمکیاں دیتے ہیں کہ اگر ان کی بات نہ مانی گئی تو وہ گھر سے چلے جائیں گے یا اپنے ساتھ کچھ کر لیں گے، اور کیا ہے ان کی محبت، ساری ساری رات فون پر باتیں کرتے ہیں، نہ جانے اس وقت یہ والدین کہاں ہوتے ہیں جنہیں بعد میں یہ سمجھ نہیں آتی کہ اب کیا کریں، اولاد ہاتھ سے نکل گئی ہے، آج کے بچوں کی محبت یہی ہے ماں باپ، بہن بھائی ہر کسی کو بھلا کر ایک انسان سے باتیں کرتے رہنا، تعلیم کا حرج ہوتا ہے تو ہوتا رہے، بات آگے بڑھتی ہے تو ملاقاتیں ہوتی ہیں، رنگین نظارے دکھائے جاتے ہیں، سب جھوٹ اور منافقت پر مبنی ہوتا ہے، عزتیں لٹ جاتی ہیں، اس کے بعد لڑائی جھگڑے شروع ہوتے ہیں، اس کے بعد بریک اپ ہوتا ہے، اداسی کا اشتہار بن جاتے ہیں، آخر میں ایک دوسرے کو بد کردار کہہ کر اور گالیاں دے کر راستے الگ کر کے اور کسی کے ساتھ یہی سب کرتے ہیں اور اسے محبت کہتے ہیں،کامل شطاری کا شعر ہے،
ہر اک اعتبار سے آج تک ہوں فقط فریب خیال میں
مری زندگی کا شمار ہے نہ فراق میں نہ وصال میں

مزید پڑھیں:  لاکھوں لگائو ایک چرانا نگاہ کا