میں آٹھویں کلاس میں تھا جب اخبار پڑھنا شروع کیا یہ وہ وقت تھا جب معلومات کا ذریعہ صرف اخبار ہی ہوتے تھے اور آج بھی اسی طرح پڑھتا ہوں،حالانکہ آج کل اخبار پڑھنے کا رجحان مرد اور خواتین دونوں میں کافی حد تک کم ہوگیا ہے کیونکہ جدید دور میں ہر چیز صرف ایک بٹن کی دوری پر ہے۔دنیا بھر میں کیا ہورہا ہے،کس ملک کی حکومت کیا کر رہی ہے،کیا ایجادات ہورہی ہیں یہ سب اخبار سے پتا چلتا ہے ۔بد قسمتی سے آج کل کتب بینی بھی پست ترین سطح پر ہے۔ہماری قوم روپے پیسے کی دوڑ میں جتنی تیز رفتاری سے بھاگ رہی ہے کتاب کے مطالعے سے اتنی ہی سرعت سے محروم ہوتی چلی جارہی ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ دولت بڑھ رہی ہے لیکن آج کل کے جوانوں کو یہ پتہ نہیں کہ ساتھ ساتھ دانش بھی گھٹ رہی ہے۔یاد رہے! جس معاشرے میں علم کے مقابلے میں دولت کو فوقیت حاصل ہو،عالم کو بے توقیر جانا جاتا ہو اس معاشرے میں جہالت پروان چڑھتی ہے۔مجھے ہمیشہ یہ محسوس ہوا کہ جب سے ہم نے کتاب سے منہ موڑا ہے،ہماری زندگی کا اضطراب بڑھ گیا ہے۔روپیہ پیسہ ہماری مادی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے لیکن کتاب ہمارے ذہن کو بالیدگی عطا کرتی ہے۔دولت ہمارے ظاہری لباس اور شکل وصورت کو خوبصورت بناتی ہے لیکن کتاب ہمیں محبت،حسن اور قابلیت کے احساس سے معمور کرتی ہے۔میرے خیال میں معاشرے میں دولت کے بیجا پھیلائو کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک پیشہ ور جس نے بلیک مارکیٹ میں ہتھکنڈے استعمال کرکے کاخ بلند تک رسائی حاصل کرلی ہے ہمیشہ مطالعے کی تحقیر کرتا ہے۔کتاب کو اس
خیال سے پڑھنا کہ اس سے آپ پر کامیابی کے سب دروازے اچانک کھل جائیں گے بالکل غیر مناسب ہے۔مطالعے سے محرومی کا نتیجہ یہ ہے کہ آب ہمارا کوئی تیر بھی ہدف کی صحیح سمت میں نہیں جارہا ہے۔ہم جتنا ٹیکنالوجی کے قریب جارہے ہیں اتنا ہی کتابوں سے دوستی دم توڑتی جارہی ہے۔نوجوان نسل میں کتابوں سے دوری کا رجحان سنجیدہ ہوتا جارہا ہے۔ماضی میں کتاب پڑھنے کا ذوق اتنا تھا کہ کتاب پڑھے بنا نیند نہیں آتی تھی۔دنیا کی مصروف ترین اقوام نے بھی کتاب سے رشتہ نہیں توڑا ۔یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ اپنے ہی ملک میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔جو قومیں کتاب سے رشتہ توڑلیں تو وہ دنیا میں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں 23 اپریل کو کتابوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس دن کی شروعات 1616 میں سپین سے ہوئی جہاں ہر سال 23 اپریل کو مرد اپنی عزیز خواتین اور لڑکیوں کو گلاب کے پھول پیش کرتے۔اس دوران جگہ جگہ مشہور ناولوں کے حصے ،شیکسپیئر کے ڈرامے اور دوسرے مصنفوں کی کتابوں کے حصے پڑھے جاتے،آہستہ آہستہ یہ روایت ورلڈ بک ڈے کی شکل اختیار کر گئی۔1995 میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جنرل کونسل نے 23 اپریل کو ورلڈ بک ڈے قرار دیدیا۔دین اسلام کا آغاز وحی کا سلسلہ ہی اقراء سے ہوا یعنی علم کی اہمیت لیکن افسوس کہ مسلمان ہی پوری دنیا میں علم میں دیگر قوموں سے پیچھے ہیں اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں کتاب کو فضول سمجھا جاتا ہے۔ہمارے گھروں میں لائبریری تو دور کی بات چند کتابوں کا ذخیرہ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔قرآن پاک نے تو دو ٹوک الفاظ میں فرما دیا کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے کبھی برابر نہیں ہوسکتے بلکہ جاننے والوں کو دیکھنے والے جبکہ نہ جاننے والوں کو اندھوں سے تشبیہ دی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے علم کا دامن تھاما اس نے دنیا پر راج کیا۔آج کل سب سے زیادہ ریسرچ کا کام امریکہ میں ہوتا ہے۔دنیا میں آج تک آٹھ سو لوگوں سے زیادہ نوبل انعام ملا ہے اس میں سے تقریباً پانچ سو یا تو امریکی شہری ہیں یا وہاں پڑھے یا کام کرتے رہے اور شہریت اختیار کر لی مگر امریکہ کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے جنگوں میں کودنے کا بڑا شوق ہے ورنہ آج بھی اکلوتی سپر پاور ہوتا۔زیادہ تر لوگوں کے نزدیک کامیابی کا تصور یہ ہے،آپ کے پاس کتنے پیسے ہیں،آپ کتنے دلیر ہیں،آپ کتنے برانڈز کے دلدادہ ہیں اور آپ کتنے فیشن ایبل ہیں یہی وہ چیزیں ہیں جو اہم سمجھی جاتی ہیں۔یعنی وہ ظاہر کو ترجیح دیتے ہیں اور سوشل میڈیا اس میں مزید ایندھن ڈال رہا ہے۔ہمارے نظام تعلیم کا بھی سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس سے نکلنے والے افراد اگر سیاست کا رخ اختیار کریں یا کاروبار کا،ڈاکڑی کا شعبہ اختیار کریں یا انتظامیہ ان سب کے سامنے ایک ہی مقصد مشترک ہوتا ہے وہ یہ کہ کسی بھی طریقے سے زیادہ سے زیادہ دولت کمائی جائے۔جس طرح ڈاکو ڈاکہ زنی کے ذریعے دولت جمع کرتے ہیں یہی حال ہمارے جدید تعلیم یافتہ مہذب طبقات کا ہوتا ہے ۔لوگ ایسے حالات میں قید ہوتے جارہے ہیں کہ وہ بہت تیز چلتے ہیں مگر کوئی فاصلہ طے نہیں کرتے۔ایک سروے کے مطابق دنیا بھر میں کم وبیش آٹھ ارب موبائل فون استعمال کئے جارہے ہیں تو انسان کتب بینی کی طرف کیسے آئیگا ؟ خاندان،دوستوں اور دفتر والوں سے رابطے کا بہرحال کوئی نہ کوئی ذریعہ ضرور رکھیں لیکن موبائل فون میں موجود سوشل میڈیا ایپس ڈیلیٹ کر دیں یقین کریں دنیا کہیں نہیں جائیگی پہلے کی طرح چلتی رہے گی۔آپ کی زندگی میں تھوڑا سکون ضرور آ جائیگا۔دنیا میں کچھ نیا شامل کرنے کیلئے آپ کو اس سوچ سے باہر نکلنا ہوگا کہ دنیا کیا کہے گی۔اگر ابنِ سینا،نیوٹن، آئن سٹائن وغیرہ اس خوف میں مبتلا ہوتے تو وہ کبھی بھی اپنے دور کے خول سے باہر نکل کر ایسی دریافتیں نہ کر پاتے۔انہوں نے اپنے علم، تخلیقی سوچ اور جذبے سے اپنے اندرونی جوہر کو مضبوط کیا۔بقول شاعر!
کچھ اور سبق ہم کو زمانے نے سکھائے۔
کچھ اور سبق ہم نے کتابوں میں پڑھے تھے۔
جس طرح اناج اگانے کیلئے پانی ضروری ہوتا ہے اسی طرح کامیابی کیلئے مطالعہ بھی ضروری ہے۔کسی بھی انسان کیلئے کامیابی ایک ایسا امتیازی موضوع ہے جو اپنی خصوصیات اور اہمیت کے اعتبار سے گہرے مطالعے کا متقاضی ہے۔مثبت مطالعہ میں شبانہ روز مصروف رہنے والوں کی ہر ساعت قیمتی بن جاتی ہے۔
