پاکستان کے دیرینہ اور بااعتماد دوست چین نے پاکستان کو دہشتگردی کیخلاف ہرممکن تعاون فراہم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے افغان عبوری حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ افغان سرزمین کو دوسروں بالخصوص پاکستان کیخلاف استعمال نہ ہونے دے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری کے دورہ چین کے اختتام پر جاری مشترکہ اعلامیہ میں دفاع، زراعت، تجارت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت متعدد شعبوں میں دوطرفہ تعاون مزید بڑھانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاک چین تعلقات کو خراب کرنے کی ہر کوشش اور سازش کو ناکام بنادیا جائیگا۔ گوادر پورٹ کی جامع ترقی اور آپریشن کو وسیع و فروغ دینے پر بھی اتفاق رائے کا اظہار کیا گیا۔ اسی طرح اس دورے کے نتیجہ میں سی پیک کے اگلے منصوبوں کا انتخاب کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ گزشتہ روز چینی وزیراعظم نے بھی مہمان صدر مملکت سے ملاقات کی۔ اطلاعات کے مطابق صدر زرداری کے حالیہ دورہ چین کے دوران 300 ملین ڈالر کے معاہدے بھی ہوئے اسی دوران پاکستان نے تائیوان سمیت دیگر علاقائی معاملات پر دوٹوک انداز میں چینی پالیسی کی حمایت کا بھی اعادہ کیا۔ صدر مملکت آصف زرداری کے دورہ چین کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ اس امر کا مظہر ہے کہ مشکل معاشی صورتحال، دہشتگردی اور دوسرے مسائل پر چین نہ صرف پاکستان کیساتھ کھڑا ہے بلکہ چینی قیادت ان مسائل سے عہدہ برآ ہونے کیلئے ہرممکن تعاون فراہم کرنے پر بھی آمادہ ہے۔ پاکستان اور چین کے دیرینہ و پْر اعتماد تعلقات پر ہمارے ہاں یہ بات زبان زد عام ہے کہ پاک چین دوستی سمندر سے گہری اور ہمالیہ کی طرح بلند و مستحکم ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے میں دہشتگردی سے پیدا ہوئے مسائل اور تحریک انصاف کے دور کی غیرمتوازن خارجہ پالیسی کی بناء پر دونوں ملکوں میں بظاہر جو دوریاں پیدا ہوئیں صدر زرداری کے حالیہ دورہ چین سے ان کے نہ صرف خاتمے کی نوید مل رہی ہے بلکہ یہ بھی واضح ہوا ہے کہ بداعتمادی کے بادل چھٹ رہے ہیں۔ سیاسی و معاشی مسائل سے دوچار پاکستان کیلئے یہ ایک اچھی اور امید افزا خبر ہے۔ مشترکہ اعلامیہ میں افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کو بلاشبہ صائب مشورہ دیا گیا ہے۔ دوحا معاہدے اور پڑوسی ملکوں سے باہمی تعلقات کی بنیادی ضرورتوں کو جس طرح افغانستان کی عبوری حکومت مسلسل نظرانداز کررہی ہے اس پر چین سمیت عالمی برادری کی تشویش بجا ہے۔ کابل میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد سے پاکستان میں افغان سرزمین سے دراندازی کا جو سلسلہ شروع ہوا اس سے صرف نظر ممکن نہیں بدقسمتی سے ایک خاص زعم اور بْعد کا شکار افغان قیادت ایک بار پھر بھارتی تعاون و سرپرستی میں ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے جبکہ اصولی طور پر اسے اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس کی سرزمین پڑوسی ممالک اور بالخصوص پاکستان میں دہشتگردی کے بڑھاوے کیلئے ا ستعمال نہ ہونے پائے۔ صدر مملکت کے دورہ چین کے حوالے سے علاقائی اور بین الاقوامی امور کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس دورہ سے پاکستان نے مؤثر حکمت عملی کیساتھ اپنے مستقبل کے حوالے سے پالیسیوں کا عندیہ دے دیا ہے نیز یہ کہ یہ دورہ ان قوتوں کیلئے بھی سرپرائز ہے جن کا خیال تھا کہ اس وقت پاکستان علاقائی اور عالمی سطح پر تنہا ہے۔ چینی قیادت نے صدر زرداری کے حالیہ دورہ چین کے دوران محض ظاہری سماجی و ثقافتی گرمی جوشی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ کھل کر پاکستان کا ساتھ دینے کے دیرینہ عزم کو دہرایا ہے اسی طرح اپنے دورہ چین کے دوران صدر زرداری نے بھی گزشتہ سے پیوستہ روز چین میں ایک تقریب سے خطاب اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں واضح کیا کہ پاکستانی خارجہ پالیسی میں چین کو اولیت و اہمیت حاصل ہے اور یہ کہ دوستانہ سماجی سیاسی و ثقافتی اور تجارتی تعلقات کا بنیادی اصول یہ ہے کہ پہلی ترجیح پڑوسی ممالک کو دی جائے یہ سوچ حقیقت پسندی کا مظاہرہ ہے۔ عالمی سیاست میں شروع ہوئی حالیہ صف بندی کے تناظر میں صدر زرداری کے دورہ چین پر پاکستان اور خطے کے ممالک کی ہی نہیں عالمی برداری کے اہل دانش کی بھی نگاہیں لگی ہوئی تھیں۔ پاک چین مشترکہ اعلامیہ کا ایک ایک لفظ ان کیلئے کھلا جواب ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول ہمیشہ یہی ہوتاہے کہ علاقائی و عالمی سیاست کی دھڑے بندی میں پاوں پھنسائے بغیر اپنے ملکی و قومی مفادات کو مقدم سمجھا جائے اور ان کی روشنی میں پالیسیاں وضع کی جائیں۔ صدر مملکت کے حالیہ دورہ چین میں ہونیوالے معاہدوں اور مشترکہ اعلامیہ کیساتھ مختلف تقریبات میں چینی قیادت کی جانب سے جن خیالات کا اظہار کیا گیا ان سے یہ بات واضح ہوگئی کہ پاکستان کو تنہا اور تر نوالہ سمجھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ پاک چین دوستی میں ہلکی پھلکی رکاوٹوں کا کوئی کردار نہیں بنیادی اہمیت دونوں ملکوں کی قیادت کے درمیان پائی جانے والی ہم آہنگی اور دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کی وہ سوچ ہے جس کا تواتر کیساتھ اظہار کیا جارہا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ سی پیک کیلئے نئے منصوبوں کے انتخاب سمیت دیگر جن امور پر دونوں ملکوں میں اتفاق پایا گیا ہے اس اتفاق کے ثمرات کے حصول کیلئے ایسی مؤثر حکمت عملی اپنائی جائیگی جو تعمیروترقی اور استحکام کی حقیقت کو دوچند کردے گی۔
