خیبرپختونخوا کے تمام تعلیمی بورڈز کے سربراہان کے مشترکہ اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا تھا کہ میٹرک امتحانات پانچ مارچ کو ایک ساتھ شروع کئے جائیںگے، اساتذہ اور طلبہ نے بھی اسی حساب سے تیاری کرلی ہوگی لیکن اب اچانک اور بغیر کسی مشاورت اور طلبہ واساتذہ کی رائے لئے بغیر بورڈز کے سربراہان کے متفقہ فیصلے کو بیک جنبشِ قلم تبدیل کر کے ایک ماہ کی تاخیر کردی گئی جس کی ہدایت وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے کی تھی، تعلیم سے اپنی دلچسپی اور دوران طالب علمی کے زمانے بارے موصوف خود ہی حال ہی میں اپنی روداد اپنی زبانی خود بیان کرچکے ہیں ،نیز وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نہ خود طالب علم ہیں نہ مدرس اور نہ ہی تعلیم کے شعبے سے ان کا کبھی تعلق رہا ہے ویسے بھی جن اجلاسوں کی صدارت کر رہے ہو تے ہیں ان کے سامنے بھی لکھی گئی چیزیں پڑی ہوتی ہیں اور اختتامی کلمات بھی ان کے اپنے نہیں ہوتے ،بہرحال وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا تو خاصے دبنگ اور ناطق ہیں ،سابق وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار تو اس قابل بھی نہیں تھے کہ لکھ کر دی گئی تحریر اختتام اجلاس پڑھ کر کچھ میڈیا کیلئے ٹکرز اور سر خیوں کا اہتمام کر پاتے، اس قبیل کے وزیر اعلیٰ کے باعث ہی اختلافات کی شروعات ہوئیں اور پوری حکومت کو لے ڈوبیں، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو کیا پڑی تھی کہ بجائے امتحانات کے بروقت انعقاد کے شیڈول ہی الٹا دیا، کیا رمضان المبارک میں باقی کام نہیں ہوتے ،اب تو موسم سازگار ہے اللہ تعالی کے بندوں نے جولائی اگست میں بھی دیہاڑی کرتے ہوئے روزے رکھنے کی سعادت حاصل کی، نوجوان طلبہ سازگار موسم میں پرچہ کیوں نہیں دے سکتے اور اساتذہ وممتحنیں کو مسئلہ کیا ہے کہ وہ ذرا کام بھی نہ کرسکیں ،اس قدر کاہلی بھی نہیں ہونی چاہئے، کیا رمضان المبارک میں دنیا کے سارے کام بند ہوجاتے ہیں اور لوگ سحری کرکے سوجاتے ہیں کاروبار حیات بند ہوجاتے ہیں
،اگر ایسا نہیں تو پھر رمضان المبارک کا بہانہ کیوں عموما ًسرکاری سکولوں کے اساتذہ پر انگشت نمائی ہوتی ہے، اتفاق سے کل ہی سرکاری سکولوں کے اساتذہ کے ایک نمائندے سے اسی موضوع پر بات چیت ہوئی تھی انہوں نے اسی خدشے کا اظہار کیا تھا اور شام کو نوٹیفکیشن بھی جاری ہوگیا ،ان کا مؤقف تھا کہ سرکاری سکولوں کے اساتذہ امتحانات کا شیڈول کے مطابق انعقاد چاہتے ہیں تاکہ تعلیمی سال متاثر نہ ہو ،صوبے کے آ ٹھوں بورڈوں کے چیئرمین صاحبان کا بھی یہی متفقہ فیصلہ تھا مگر پرائیویٹ سکولوں کے مالکان کی دلچسپی امتحانات ملتوی کرانے کی ہے اور لگتا ہے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا بھی ان کے بہکاوے میں آ گئے اور آ ٹھوں بورڈوں کے چیئرمین صاحبان کا فیصلہ ردی کی ٹوکری میں چلا گیا، کیوں صرف اس وجہ سے کہ ایجوکیشن مافیا کو پسند نہ تھا کہ وہ من پسند اساتذہ کو روزے کی وجہ سے کھانے پلانے اور گھمانے کی عیاشی نہ کرواسکتے اور اپنے طلبہ کو مرضی کے مطابق چھوٹ نہیں دلوا سکتے، یہ جھوٹ اور بہتان ہر گز نہیں ،بڑے نامی گرامی سکولوں میں طلبہ سے اضافی رقم لینے کے ثبوت موجود ہیں مزید طشت از بام یہ لوگ اس وقت ہوتے ہیں جب ان کے سکولوں کے ٹاپرز انٹری ٹیسٹ میں رہ جاتے ہیں، غالبا پچھلے سال کی بات ہے کہ سرکاری سکولوں کے عام نمبروں والے طالب علموںنے اکثریت میں انٹری ٹیسٹ میں اچھی کارکردگی دکھائی، ملک کی اعلیٰ ملازمتوں کے امتحانات ہوں یا دیگر شعبوں میں ٹاٹ سکولوں کے پڑھے بہت ملتے ہیں، مگر بد اچھا بدنام برا ،سرکاری سکولوں کے حوالے سے خود میری اپنی رائے زیادہ اچھی نہیں ۔
زیادہ دور کی بات نہیں کرونا کی وبا کے موقع پر ہمارا نظام تعلیم وتدریس و امتحانی نظام جس بری طرح متاثر ہوا تھا اس کے اثرات اس پورے بیج پر تو مرتب ہوئے ہی باقی بھی بڑی خرابیاں پیدا ہوئیں، امتحانات ملتوی کر نے والوں کے پاس یہ بھونڈی دلیل ہی ہوگی کہ طلبہ کو تیار ی کا مزید وقت ملے گا، ایسا نہیں ہوتا بلکہ الٹا طالب علموں کی تیاری تاخیر کے باعث متاثر ہوتی ہے، پڑھنے والے بھی پڑھا ئی چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور نہ پڑھنے والوں کو تو ویسے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، رمضان اور امتحان بارے ایک حقیقی واقعہ ہے، صوابی کے ایک نیازبین طالب علم کو والدین نے روزہ رکھنے سے یہ کہہ کر روکا کہ روزہ رکھ کر وہ پری میڈیکل کی مشکل تیاری نہیں کرسکتے، صاحب زادے کو روزہ دار ماں اچھے اچھے کھانا بنا کر کھلاتی رہی، بچے نے خوب تیاری کی، عید الفطر کے بعد ایف ایس سی کا امتحان شروع ہونے سے صرف ایک دن قبل صاحب زادے کو ایک ایسی بیماری نے آ گھیرا کہ تڑپتے بچے کی بیماری کی کسی طور تشخیص نہ ہوئی، امتحانات جس روز ختم ہوئے نوجوان خود بخود تندرست ہوگیا ،تب والدین کو سمجھ آ گئی کہ قدرت کے کھیل نرالے ہوتے ہیں ،خیر یہ ایک انفرادی مثال تھی مگر ہے باعث عبرت ،ممکن ہے میرے قارئین میں سے کوئی اس کی تصدیق بھی کردے مجھے صوابی کے جس رفیق اداریہ نے یہ واقعہ سنایا وہ اب امریکہ میں مقیم ہے ،مشکل یہ ہے کہ ہم کم ہی عبرت حاصل کرتے ہیں ۔وزیراعلیٰ کے احکامات جاری ہونے اور نوٹیفکیشن جاری ہوجانے کے بعد اب اس کی منسوخی ظاہر ہی ہو نہیں سکتی، میری گزارشات کا بہرحال مطلب ومقصود بس یہی ہے کہ حکمران عقل کل نہ بنیں ،متعلقہ عمال اور جہاں عوام اور کوئی کمیونٹی بطور خاص متاثر ہو تو کم از کم ان کی رائے لینے کی زحمت ضرور کریں، ویسے تو سوشل میڈیا کا کتنا منفی استعمال ہوتا ہے اس پر ایک سروے میں رائے تو معلوم کی جائے تو حرج کیا ہے۔
