امر واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کی مروجہ سیاست میں کوئی اصل اصول ہے نہ ایک دوسرے کیلئے برداشت کا وہ مادہ جو جمہوریت کا ابتدائیہ قرار دیا جاتا ہے۔ شخصیت پرستی اور عدم برداشت نے ایک ایسا جمہوری ماحول بننے ہی نہیں دیا جو عوامی امنگوں کے مطابق ہی نہ ہو بلکہ عوام کی حقیقت پسندانہ رہنمائی کے تقاضوں پر پورا بھی اترے۔ الزاماتی سیاست نے پورے سماج کی ایسی کایہ کلپ کی ہے کہ سدھار کی توقعات عبث ہیں۔ بہرطور ان تلخ حقائق کے باوجود میدانِ سیاست میں موجود قائدین اور سیاسی جماعتوں کے دوسرے ذمہ داران کو ٹھنڈے دل سے سوچنا ہوگا کہ انہوں نے سیاسی عمل اور سماج کو جہاں لاکھڑا کیا ہے یہاں سے واپسی کیسے ہوگی؟ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ حزب اختلاف کے دنوں میں جو قائدین اور جماعتیں سیاسی عمل اور نظام حکومت میں ہر طرح کی ادارہ جاتی مداخلت کو زہر قاتل قرار دیتی ہیں اقتدار میں آنے کیلئے انہی اداروں کو بیساکھیاں بنانے میں رتی برابر تامل محسوس نہیں کرتیں۔ اہل سیاست کو نہ صرف مجموعی صورتحال کا تجزیہ کر کے ا گلے مرحلوں کیلئے حکمت عملی وضع کرنا ہوگی بلکہ اس کیساتھ ساتھ ”عطار کے بالک” سے دوا لینے کی بدعت سے بھی نجات حاصل کرنا ہوگی۔ صرف اہل سیاست ہی نہیں اس ملک کے بعض اداروں اور محکموں کے ذمہ داران کو بھی اب سوچنا ہوگا کہ دستور اور قانون ان سے کس کردار کا متقاضی ہے اور وہ کیا وجوہات ہیں نیز یہ کہ اپنے آئینی کردار اور حدود سے تجاوز کرکے انہوں نے ملک اور نظام کی کوئی خدمت کی یا دونوں کو مسائل کی دلدل میں دھکیلا؟ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دستیاب دینی و سیاسی جماعتوں کی اکثریت کسی آفاقی یا اسلامی نظریہ کی بجائے شخصیت پرستی کو بڑھاوا دیتی آرہی ہیں اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان جماعتوں میں سے ہر ایک جماعت کا ہمدرد دوسری جماعت اور قیادت کیلئے اخلاقی و سماجی اقدار کا بھرم بھی رکھنے کو تیار نہیں۔ اس پر ستم یہ ہے کہ سبھی اس صورتحال کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہراتے ہیں لیکن حقیقت میں سبھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ پاکستان کو قائم ہوئے لگ بھگ76 برس ہوگئے ان گزرے76 برسوں کی سیاسی تاریخ میں ماسوائے1973ء کے دسور کے کوئی ایک چیز بھی قابل ستائش نہیں۔ ساڑھے سات دہائیوں سے اوپر کی ملکی و سیاسی تاریخ میں جو المیے رونماء ہوئے ان کے ذمہ داروں کے تعین کیلئے بھی کچھ نہیں ہوسکا یہاں تک کہ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بننے والے حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ حکومتی سطح پر عوام کے استفادے کیلئے عام نہیں کی گئی اصولی طور پر نہ صرف اس رپورٹ کو پبلک کرنے کی ضرورت تھی بلکہ اس کے بعد ایک قومی کمیشن بننا چاہیے تھا جو ریاست اور نظام کی اس طور رہنمائی کا حق ادا کرتا کہ مستقبل میں ایسی غلطیاں دہرانے سے بچا جاسکتا جو کسی نئے سقوط کی راہ ہموار کرتی ہوں۔ آج پاکستان کے جو مجموعی حالات ہیں وہ ایک عام شخص کو دہلادینے کیلئے کافی ہیں۔ ملک کے دو صوبے خیبر پختونخوا اور بلوچستان دہشتگردوں کا نشانہ ہیں۔ مذہبی و نسلی شائونزم کی کوکھ سے پھوٹنے والی دہشتگردی کی بدولت دونوں صوبوں میں عام شہری جس عدم تحفظ کا شکار ہیں اس سے صرف نظر کرنا ازبس مشکل ہے رہی سہی کسر ان شدت پسند مذہبی گروہوں نے پوری کردی جو سٹریٹ جسٹس کو کِلِ ایمان سمجھ کر اختلاف رائے رکھنے والوں کی زندگی اجیرن کئے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس صورتحال پر کوئی غور کرنے کو تیار ہے نہ سامنے دیوار پر صاف سیدھے انداز میں لکھے سوالات کا جواب دینے کو کوئی آمادہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک عام شہری کس سے پوچھے کہ وہ آج جہاں کھڑا ہے یہاں سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے یا وہیں اپنے انجام و اختتام کا انتظار کرنا واجب ہوگیاہے؟ اس وقت وطن عزیز ایسے گھمبیر مسائل سے دوچار ہے کہ ان کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی عام شخص کا کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ معاشی و سیاسی عدم ا ستحکام کا دور دورہ ہے۔ مہنگائی حکومتی دعوئوں کے برعکس شہریوں کا بھرکس نکالے ہوئے ہے۔ تعلیم اور علاج معالجہ بڑے کاروبار بن چکے ہیں غربت اور بیروزگاری سے پیدا ہوئے مسائل ہر کس و ناکس پر عیاں ہیں سوائے ان کے جو اپنی ذات سے آگے دیکھ نہیں پاتے اور اپنی خواہشوں کو حرف آخر سمجھتے ہیں جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آنے والے دنوں کیلئے لائحہ عمل وضع کیا جائے۔ اندریں حالات ہم حکومت و حزب اختلاف میں موجود سیایس جماعتوں اور ان کے قائدین کی خدمت میں درخواست ہی کرسکتے ہیں کہ ہر گزرنے والے دن کیساتھ سنگین ہوتے مسائل اور بڑھتی ہوئی محرومیوں کا ادراک کرتے ہوئے غوروفکر کی زمت کریں تاکہ ایسا نہ ہو کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے اور انہیں ملال کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہ آئے۔ امید واثق ہے کہ سیاسی قیادت میں اور تو کی تکرار سے جان چھڑاکر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریگی بصورت دیگر ”خاک ہوجائیں گے اہلِ وطن تم کو خبر ہونے تک”۔
