اس صورتحال کی ذمہ داری کسی ایک حکومت یا مخصوص سیاسی جماعت پر ڈالنے سے پہلے یقینا اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنا پڑیگا کہ ملک میں بھکاریوں کی تعداد میں جو اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ حالات کنٹرول سے باہر ہو چکے ہیں تو اس کی اصل وجوہات کیا ہیں ؟ جبکہ یہ اتنا مشکل اور ادق سوال بھی نہیں ہے جس پر بہت گہرائی میں جا کر سوچنے کی ضرورت پڑے ،گزشتہ کئی ادوار سے مختلف حکومتوں کی غلط پالیسیوں ،غلط فیصلوں اور ملکی وسائل کو ترقی دیکر ملکی معیشت اور اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے اور اسے اپنے پیروں پر کھڑا کر کے آگے بڑھانے کی بجائے صرف اور صرف بیرونی قرضوں پر انحصار کرنے کی منفی پالیسیوں نے ملک میں جو حالات پیدا کئے جبکہ بیرونی قرضوں کی مبینہ لوٹ مار اور بندر بانٹ نے حالات کو دگرگوں بنانے میں اہم کردار ادا کیا، اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ ملک کا بچہ بچہ اس سے بخوبی واقف ہے ،دولت کے ارتکاز کی چند ہاتھوں میں لانے کی پالیسیوں نے قومی معیشت کیساتھ کیا گل کھلائے اور صورتحال یہاں تک پہنچا دی کہ اب قرضوں کو تو رکھئے ایک طرف ،ان قرضوں پر پڑنے والے سود کی ادائیگی کیلئے بھی مزید قرضے لینا لینے پڑتے ہیں، اس صورتحال کی وجہ سے ملک میں بیروزگاری غربت اور دیگر منفی رجحانات نے عام لوگوں کو غربت کی لکیر کے نیچے تیزی سے دھکیلتے ہوئے پسماندگی کی گہری اور عمیق گھاٹیوںمیں اترنے پر مجبور کر دیا ہے اور بھیک مانگنے والوں کی تعداد میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اس کے مظاہرے ملک بھر میں آسانی کیساتھ دیکھے جا سکتے ہیں، اگرچہ اس صورتحال نے ایسے مافیاز کو جنم دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے جو بھیک مانگنے کے مسئلے کو ” جرائم” تک لے کر جا رہے ہیں اور حقیقی غریبوں ،ناداروں کیساتھ ساتھ پیشہ ور بھکاریوں کے پرے کے پرے ہر شہر کے چوکوں اور چوراہوں پر قبضہ جمائے نظر آتے ہیں، اس سلسلے میں پشاور کی حالت دیدنی ہے جہاں ہر بازار، چوراہوں، ٹریفک سگنلز یہاں تک کہ ہر گلی میں بھیک منگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ سرگرم دکھائی دیتے ہیں، حکومت اگرچہ تمام ایسے افراد کی دادرسی تو نہیں کر سکتی مگر کم از کم پیشہ ور بھکاریوں کے غول در غول گھومنے کو کنٹرول تو کر سکتی ہے، شنید ہے کہ اس میں ایسے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جو بھیک مانگنے کی آڑ میں ” وارداتیں” کرتے ہیں، اس صورتحال کی اصلاح ضروری ہے تاکہ پشاور کو بھکاری فری بنانے میں مدد مل سکے۔
