ایک اخباری اطلاع کے مطابق ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری سندھ کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ملکی و غیر ملکی کمپنیوں کی100 سے زائد ادویات غیر معیاری ہیں، رپورٹ کے مطابق ڈرگ انسپکٹرز کے ذریعے مارکیٹ سے متعدد سیمپلز (نمونے) منگوائے گئے، رپورٹ میں100سے زائد ادویات کوجعلی اور غیرمعیاری قرار دیا گیا، ان نمونوں میںدوا کی مطلوبہ مقدار موجود نہیں تھی، امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں ادویات کے معیار کے حوالے سے کڑا احتساب کیا جاتا ہے اور مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترنے والی ادویات بنانے والوں کیخلاف سخت تادیبی اقدام اٹھائے جاتے ہیں ،ان کے لائسنس منسوخ کر دئیے جاتے ہیں اور ایسی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کر کے ان کو بھاری جرمانے بھی کئے جاتے ہیں ،جبکہ بدقسمتی سے نہ صرف ہمارے ہاں معیار پر سمجھوتہ کرنے کے حوالے سے بھی خبریں گشت کرتی رہتی ہیں، یہاں تک کہ معیاری کمپنیوں کے جعلی ناموں یا پھر کم معیار کے ادارے قائم کر کے مطلوبہ اہم ادویات ملتے جلتے ناموں سے بنا کر مارکیٹ میں پھیلائی جاتی ہیں اور مبینہ طور پر معالجین کو بھاری پیشکشوں کے ذریعے اپنے نسخوں میں ہی غیر معیاری دو نمبر بلکہ بعض صورتوں میں تین نمبر کی جعلی ادویات مریضوں کو لکھ کر خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے، یہ انسانیت کی تذلیل اور خلق خدا کی صحت کیساتھ کھیلنے کے مترادف ہے ،ضرورت اس امر کی ہے کہ اس صورتحال کے تدارک کیلئے سخت قوانین بنائے جائیں اور جعلی ادویات کا دھندہ کرنیوالوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے ان کے گرد شکنجہ سخت کیا جائے ،جو معالجین ذاتی مفادات کیلئے اس مکروہ دھندے میں ان جعلی اور غیر معیاری کمپنیوں کا ساتھ دیتے ہیں ان سے بھی یہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ وہ عالمی سطح پر علاج برائے ” دکھی انسانیت کی خدمت ”کے نعرے پر حقیقی طور پر عمل کرتے ہوئے اللہ کا خوف دل میں لائیں اور محولہ نعرے کو محض ” نام نہاد” بنا کر عام لوگوں کی صحت کیساتھ نہ کھیلیں ،ہم جانتے ہیں کہ اس قسم کے مکروہ دھندے میں طب کے شعبے سے تعلق رکھنے والے سبھی لوگ شامل نہیں ہیں بلکہ اچھے اور ایماندار لوگوں کی یہاں بھی کمی نہیں ہے ،تاہم چند بر خود غلط لوگوں کی وجہ سے طب جیسے اہم شعبے پر الزامات قابل قبول نہیں ہو سکتے اور یہاں بھی خود احتسابی کے عمل کو اہمیت ملنی چاہیے۔
