میں آج ساری کتابیں جلا کے لوٹ آیا

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خوراک و تحفظ کے اجلاس میں متعلقہ وزارت کے حکام نے بتایا کہ گدھوں کا مذبحہ خانہ بنایا گیا ہے اور اس سے پیداوار بھی شروع ہو گئی ہے، خبر کے مطابق چین کیساتھ گدھوں کی کھالوں اور ہڈیوں بارے معاہدہ ہوا ہے ،حکام نے بتایا کہ لوڈر رکشوں کی وجہ سے گدوں کا استعمال کم ہو رہا ہے، اچھی نسل کے گدھوں کی بریڈنگ ہونی چاہیے ،کہتے ہیں جس کا کام اسی کو ساجھے، ہمیں یاد ہے کہ چین کیساتھ گدھوں کی تجارت کے حوالے سے سب سے پہلے سابق صوبائی وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے ایک معاہدہ کیا تھا اور اس مقصد کیلئے صوبے میں ” گدھا فارم” قائم کر کے گدھوں کی کھالوں کی برآمدات کا آغاز کیا گیا تھا، اب نہیں معلوم کہ ان فارمز کا کیا بنا؟ اس حوالے سے کسی انویسٹی گیٹیو صحافی نے اب تک کوئی رپورٹ مرتب نہیں کی، یہ سوچ کر کہ گدھوں پر کیا لکھنا ،اس دور میں گدھوں کی کھالوں کی تجارت کے حوالے سے تو اکثر خبریں آتی رہتی ہیں جبکہ کہیں نہ کہیں سے گدھوں کے” گوشت ” کی فروخت اور انسانوں کو یہ گوشت کھلانے کی اطلاعات بھی ا جاتی ہیں اور ایسی خبریں زیادہ تر ملک کے ایک بڑے صوبے سے ا جاتی ہیں ،تاہم ملک کے دیگر صوبوں سے گدھے کے گوشت پر خبریں اور تبصرے بالکل ہی نہ آتے ہوں ایسا ہرگز نہیں تھا، یعنی گدھوں کا گوشت فروخت کرنیوالے دیگر شہروں میں بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے اور” حصہ بقدر جثہ” کے اصول پر کاربند رہ کر عوام کو مستفید کرنے میں ذرا تامل نہیں کرتے تھے ،خیر بات ہو رہی تھی خیبر پختونخوامیں گدھا فارمز کے قیام کے بعد اب تازہ اطلاعات کے حوالے سے گوادر میں بھی گدھوں کیلئے مذبحہ خانہ قائم ہونے کی جہاں نہ صرف گدھوں کی کھالوں بلکہ ہڈیوں تک کی تجارت بڑھانے میں خود چینی باشندے بھی شامل ہوں گے، ادھر گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخوا کے نئے صدر جنید اکبر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پارٹی میں گدھے اور گھوڑوں کا فرق رکھوں گا، موصوف نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے موقع پر انہیں 75 کروڑ کی پیشکش ہوئی خیر اس”آفر ” کے معاملے کو فی الحال ایک طرف رکھتے ہوئے گدھوں اور گھوڑوں والی بات پر تبصرہ کرتے ہیں، ایک شاعر نے کہا تھا
ہم گدھے کو گدھا سمجھتے ہیں
جانے وہ ہم کو کیا سمجھتے ہیں
یہ جو قائمہ کمیٹی برائے خوراک و تحفظ کے ایک رکن نے اجلاس کے دوران بتایا کہ اچھی نسل کے گدھوں کی بریڈنگ ہونی چاہیے تو اسے اس نے ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ جب بقول سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اسلم رئیسانی ” گدھا تو گدھا ہوتا ہے چاہے اصلی ہو یا نقلی”تو اب یہ اچھی نسل یا۔۔۔۔ کسی اور نسل کا سوال کہاں اٹھتا ہے کیونکہ خصلتوں اور عادات کے حوالے سے سب گدھے برابر ہوتے ہیں یعنی” گدھے ہی ہوتے ہیں” اس پر اپنے زمانہ طالبعلمی کے دور میں چھٹی جماعت کی انگریزی کتاب میں شامل ایک کہانی یادآگئی ہے، یہ ہم 50ء کی نصف آخر کی بات کر رہے ہیں، ہم 1956ء میں چھٹی جماعت کے طالبعلم تھے اور ہماری انگریزی کی درسی کتاب میں ایک کہانی تھی جس میں ایک تاجر دور کے گاؤں سے ہفتے دس دن میں ایک بار بڑے شہر میں مختلف اشیاء لا کر بیچا کرتا تھا ،اس نے باربرداری کیلئے ایک خچر، ایک گدھا اور
اپنے لئے ایک گھوڑا پال رکھا تھا، ایک دن وہ منڈی سے بہت سا سامان خرید کر خچر پر نمک اور دیگر سامان جبکہ گدھے پر رحم کھاتے ہوئے روئی کی گانٹھیں لاد کر واپس ہوا ،راستے میں ایک ندی پڑتی تھی وہاں سے گزرتے ہوئے خچر نے ندی کے عین درمیان میں رک کر دو تین غوطے لگائے تو گدھے نے اس سے پوچھا کہ تم نے پانی میں غوطے کیوں لگائے ؟خچر نے جواب دیا میری کمر پر منوں کے حساب سے نمک بھی لدا ہوا ہے، میں نے غوطے لگا کر بہت سا نمک پانی میں بہا دیا ہے اور اب میں زیادہ بوجھ سے نجات حاصل کر چکا ہوں، یہ سن کر گدھے نے بھی پانی میں غوطے لگائے مگر نتیجہ ظاہر ہے روئی میں پانی گھس جانے کی وجہ سے اس کا وزن تین چار گناہ بڑھ گیا اور اس کے بعد گاؤں تک پہنچنا اس کیلئے محال ہو گیا، اس لئے تو کہتے ہیں کہ گدھا تو گدھا ہی ہوتا ہے چاہے کسی بھی نسل سے ہو ۔گدھوں ،گھوڑوں اور خچروں کے حوالے سے ہمارا اپنا ہی ایک شعر جو مرحوم ڈاکٹر راحت اندوری کی زمین میں کہا ہے کچھ یوں ہے کہ
دو لتیوں سے سارا منظر پل میں بدل دیتے ہیں
گدھے ودھے ،گھوڑے شوڑے، خچر وچر سب
یہ جو تحریک انصاف کے نئے صوبائی صدر نے پارٹی میں ”ما گدھوں اور گھوڑوں” میں فرق رکھنے کی بات کی ہے تو اس پر وہ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ، حاشا وکلا ہم اس جانب اشارہ کرنا نہیں چاہتے جو ان کے منہ سے نکلے ہوئے ” الفاظ” سے مطلب اخذ ہو سکتا ہے، اب انہیں چاہیے کہ وہ خود اپنے ہی الفاظ کا مطلب سمجھاتے ہوئے واضح کریں کہ ان کی جماعت کے اندر ان دونوں الفاظ کے اوصاف رکھنے والوں کی تعداد کتنی ہے؟ اور اب جس طرح قائمہ کمیٹی برائے خوراک و تحفظ کے رکن رانا محمد حیات نے گدھوں کی اعلیٰ اور ادنیٰ نسلوں کا ذکر کیا ہے تو تحریک کے صوبائی صدر اس بات کی نشاندہی ضرور کریں کہ جن کی جانب انہوں نے اشارہ کیا ہے ان میں بھی نسلوں کی یہ تقسیم موجود ہے یا انہوں نے محض تفنن تبع کیلئے ایسا کہا ہے ؟البتہ اس پر اب ان کی جماعت کے لوگوں کو ضرور سوچنا چاہیے کہ پارٹی کے نئے مقرر کردہ صوبائی صدر جنید اکبر اور دیگر جماعتوں کے رہنماؤں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے جو ہمیشہ عوام کو” عوام کا لا نعام” کے نام سے یاد کرتے ہیں یعنی ان کے نزدیک عام عوام” کالا نعام ” یعنی جانور ہی ہوتے ہیں جنہیں یہ جب چاہیں جیسا چاہیں جانوروں کی طرح ہنکا لئے جاتے ہیں، اس حوالے سے بھی ہم نے محولہ بالا غزل کے اندر ایک اور شعر بھی کہا ہے کہ
کوئی لوٹے ہم کو، کوئی وعدوں پہ ٹرخائے
افسر و فصر، لیڈرویڈر، تاجر واجر سب
بات ہو رہی تھی چین کیساتھ گدھوں کی تجارت کی اور سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے دور میں چین کیساتھ معاہدے کے تحت گدھوں کی نسل کشی (ک پر زبر) کا جو معاہدہ ہوا تھا اس میں غالباً زندہ گدھوں کی برآمد کی بات ہوئی تھی مگر گدھوں کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ اگر اسے آگے لے جانے ( ہانکنے) کی کوشش کی جائے تو وہ ایک قدم بھی لینے کو تیار نہیں ہوتا اور پشتو کے ایک ضرب المثل کے مطابق ” خرہ خپہ” یعنی جہاں ہے ،جیسا ہے، ضد میں آ کر کھڑا رہتا ہے، بلکہ پیچھے کی طرف حرکت کرتا ہے، اس لئے جب اسے دریا پار کرانے کیلئے کشتی میں سوار کرانا ہوتا ہے تو اس کا رخ دریا اور کشتی کے الٹ کر دیا جاتا ہے اور آگے کی طرف اس کے گلے میں پڑی رسی کھینچی جاتی ہے تو وہ پیچھے کی جانب زور لگاتے ہوئے الٹے پاؤں چلتا ہوا کشتی پر سوار ہو جاتا ہے، سو اب یہ جو سلاٹر ہاؤس یہیں بنائے گئے ہیں تو ممکن ہے چینی بھی اسے کشتیوں(بحری جہازوں)میں چڑھانے میں ناکام ہو کر اسی نتیجے پر پہنچے ہوں گے زندہ لے جانے کی بجائے ادھر ہی انہیں ” کیں” کر دیا جائے تاکہ گدھوں کی دولتیوں سے محفوظ رہ سکیں ،ویسے بھی گدھے پر کتابوں کا انبار لادنے سے وہ پڑا لکھا نہیں ہو جاتا۔
جہالتوں کے اندھیرے مٹا کے لوٹ آیا
میں آج ساری کتابیں جلا کے لوٹ آیا

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات کے مسئلے سے پہلو تہی