کرک میں منعقدہ گرینڈ امن جرگہ نے علاقے سے مسلح گروہوں کے انخلا کے لیے تین دن کی مہلت گزرنے کے بعد از خود کارروائی کا عندیہ دیا ہے ۔جرگہ اعلامیہ کے مطابق اگر مقررہ مدت کے بعد مسلح گروہ موجود رہے تو قوم لشکر کشی پر مجبور ہو گی لواغر پارک میں امن پاسون کے نام سے ہونے والے جرگہ میں عمائدین علاقہ نے کہا کہ وہ پرامن کرک کو سوات لکی مروت اور بنوں نہیں بنانا چاہتے اگر بات یہاں پر نہیں رکی تو ہم پولیس کے ہمراہ مسلح نکلیں گے اور کرک میں موجود نامعلوم افراد کے خلاف لشکرکشی کی جائے گی یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے گا اس اعلان سے واضح ہوتا ہے کہ امن کے خلاف سرگرم افراد پوشیدہ نہیں بلکہ علانیہ طور پر علاقے میں موجود ہی نہیں بلکہ ان کو مبینہ طور پر مدد بھی حاصل ہے اگر یہ الزام نہیں تو پھر یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بڑا سوال ہے کہ وہ عوامی دہمکی کی نوبت آ نے سے قبل ان کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی ۔حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ایک جانب جہاں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ڈیرہ اور شمالی وزیرستان میں سات دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا ہے اور مختلف علاقوں میں وقتا فوقتا سیکیورٹی فورسز کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی ہوتی رہتی ہے لیکن اس کے باوجود اگر دیکھا جائے تو عوامی سطح پر اطمینان کی وہ صورتحال نہیں جو ہونا چاہیے اس سے پہلے بنوں میں عوام کی جانب سے اسی طرح کے عزائم کا اظہار کیا گیا تھا اور عوام کی جانب سے اپنا تحفظ اپ کرنے کیلئے اسلحہ بھی اٹھانے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا جس پر وزیر اعلی خیبر پختون خواہ علی امین گنڈاپور کو موقع پر جا کر عوامی دھرنا اس وعدے کے ساتھ ختم کرانا پڑا تھا کہ حکومت اس ضمن میں اپنی ذمہ داری پوری کرے گی تاہم اس کے باوجود ہنوز بنوں کے عوام مطمئن نہیں ۔کچھ اسی طرح کی صورتحال کا ارادہ اب کرک میں سامنے ایا ہے سمجھ سے بالاتر امر یہ ہے کہ ایک جانب پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے قربانیوں کی تاریخ رقم کر کے خوارج کا صفایہ کرنے کی مہم جاری ہیاور دوسری جانب کرک میں عوام تحفظات کا شکار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ کون افراد ہیں جن کی موجودگی پر مقامی افراد کو تشویش ہے اور وہ علاقے کے امن کے لیے ان افراد کو خطرہ سمجھتے ہیں ہمارے خیال میں عوام کی جانب سے جس عزم کا اظہار کیا گیا ہے اس کی مخالفت نہیں کی جا سکتی البتہ اس کی بہتر صورت یہ ہو سکتی ہے کہ عوام سیکیورٹی فورسز اور پولیس کے ساتھ مل کر ان افراد کے خلاف سرگرم عمل ہوں۔ عوامی سطح پر اس اقدام کی حمایت اس لیے نہیں کی جا سکتی کہ اس طرح کی کسی مسلح کاروائی کی قانون میں گنجائش نہیں کیونکہ یہ عوام کی نہیں بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے ۔بہتر ہوگا کہ حکومت اور دیگر ادارے مقامی شہریوں کے اس عزم کو تعاون کی صورت میں حاصل کرکے علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوں۔
