ہم مسلمان بھی عجیب ہیں نماز نہیں پڑھتے،قران کے لیے وقت نہیں،رزق حلال کما، تو پھر ہم امیر نہیں بن سکتے،غیر عورت کو مت دیکھو، تو پردہ دل کا ہوتا ہے،بے پردہ مت گھومو، تو میرا جسم میری مرضی۔دور جدید کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جس نے جو چاہا دکھایا۔ننگ پن فحاشی کے وہ مناظر دکھائے جانے لگے جو اکیلے دیکھتے ہوئے بھی شرم آجائے۔اینکر کمپیئر کا دوپٹہ جو سر سے نہ ہٹتا تھا گزرتے وقت کیساتھ دوپٹہ ہی نہیں حیا بھی کہیں گم ہو گئی اور ٹک ٹاک نے تو حیا کا جنازہ ہی اٹھادیا۔ آزادی کے نام پر یہ کس معاشرہ کی تصویر پیش کی جارہی ہے؟ابھی چند دن پہلے پشاور میں ایک ٹک ٹاکر کی مردہ لاش ملی جو ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ ٹک ٹاکر کی موت زائد مقدار میں نشہ اور گولیاں کھانے سے ہوئی۔اس کو مارنے کا ذمہ دار کون ہے،یہ ٹرینڈ سیٹر،ہمارے معاشرے کے لوگ،والدین یا پھر وہ حکمران جو یہ تماشہ دیکھتے ہیں لیکن اس پر پابندی لگانے کا کوئی اہتمام نہیں کرتے۔ آئے دن طلاقوں کی شرح بڑھتی جارہی ہے اور آج میرا جسم میری مرضی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔انسانیت جیتے جی مر رہے ہے،گھر برباد ہورہے ہیں نسلیں تباہ ہو رہی ہیں ،بیٹیوں کی عفت نیلام ہورہی ہے،نہ ماں کا تقدس ہے نہ باپ کا احترام،غلط،بے حدود اور بے لگام راہیں انسان کو اچھی لگنے لگی ہیں جس سے سماج بکھرتا جارہاہے۔اج کل اکثر دوست احباب مذاق میں گندی ویڈیو اور تصاویر مختلف سوشل میڈیا کے گروپ میں بیجھتے ہیں احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہوں کی طرف راہنمائی کرنے والا،اس راہنمائی کی وجہ سے گناہ میں پڑجانے والے کے ساتھ وبال میں شریک ہوتا ہے۔اللہ تعالی کو کھلے عام گناہ کرنے والے پسند نہیں جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ میرا ہر امتی معاف کیا جاسکتا ہے لیکن اعلانیہ گناہ کرنے والے معاف نہیں کیے جائیں گے لہذا جو سوشل میڈیا پر بری بات پیھلائے گا جہاں تک وہ بری بات پہنچے گی اس کی اشاعت کے گناہ میں پہلا شخص بھی شریک ہوگا۔موت ہر کسی کو آنی ہے اور جب یہ آتی ہے تو نیکیاں کرنے،ثواب پانے کے دروازے بھی بند کردیتی ہے۔تین چیزیں ایسی ہیں کہ مرنے کے بعد بھی کام آتی ہیں جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا! جب انسان مرجاتا ہے تو تین اعمال کے علاہ اس کے عمل منقطع ہوجاتے ہیں۔صدقہ جاریہ،وہ علم جس سے نفع اٹھایا جاتا ہو اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔اج کل معاشرے کے حالات کچھ اس طرح کے ہیں کہ زندہ ہوتے ہوئے بھی لوگ ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دیتے تو مرنے کے بعد کون ہمارے لئے ایصال ثواب کا اہتمام کرے گا،اس لیے ہمیں چاہیے کہ صدقہ جاریہ اور علم نافع کا سامان کرنے کے ساتھ ساتھ آپنی اولاد کو نیک رستے پر لگا کر دنیا سے جائیں۔مسلمان کو جدت اور ترقی کے لئے اسلامی اصولوں کی پاسداری کرنا ضروری ہے ۔اگر معاشرے میں کوئی گناہ کا واقعہ پیش آجائے تو تمام ٹک ٹاکر گناہ کی اتنی تشہیر کرتے ہیں کہ جس کو ان باتوں کا علم نہ ہو انہیں بھی خبر ہو جائے حالانکہ گناہ کی تشہیر گناہ سے بڑھ کر گناہ ہے۔یہ بات تو ہے معاشرتی بے حیائی کی لیکن اب تو پاکستانی قوم انفرادی طور سے بھی فحاشی میں کم نہیں،یہ ہے ہمارا ذہنی معیار،ان سب باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آج کے مسلمان سے حیا رخصت ہوچکی ہے۔یہ کتنی المناک بات ہے کہ اسی دور جدید میں ہم کون سی نسل کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ہماری نسل اپنا قیمتی وقت علم اور کتابوں کے بجائے کن فضولیات(ٹک ٹاک،فیس بک) وغیرہ میں ضائع کرتی ہے،سوشل میڈیا انٹرنیٹ فحاشی اور بے حیائی کی دلدل میں نوجوان نسل تباہ ہورہی ہے،فحاشی اور بے حیائی سے انسانیت درندگی سے بھی زیادہ بدتر ہو رہی ہے۔دور حاضر کا ایک بڑا فتنہ ٹک ٹاک کے نام پر ہمارے دروازوں پر فحاشی وعریانی کا سیلاب لارہا ہے۔اس کلچر نے مردوزن کے اختلاط کو فروغ دیا ہے۔اکثر اوقات لڑکے،لڑکیاں اکھٹے ویڈیوز بناتے ہیں تو یہ اسلامی نقطہ نظر سے انتہائی خوفناک آمر ہے۔یہ یورپ کے آزاد معاشرے کا کلچر ہے۔اسلام کا موقف بہت صریح اور واضح ہے۔اسلام تو بلا ضرورت عورت کو گھر سے نکلنے کی اجازت ہی نہیں دیتا لیکن آج کل مختلف شہروں کے معروف سیاحتی اور تاریخی مقامات پر جاکر شہرت اور دولت کمانے کے لئے تمام غیر محرموں کو اعلانیہ اکھٹا کرکے رسوا ہونا کون سی مجبوری ہے؟ بے حیائی کے فروغ میں ہمارے اسلامی ساکھ کو نقصان پہنچانے،خواتین کو گھروں میں لڑانے اور زمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کروانے کے لئے ہماری فلم انڈسٹری اور ڈرامہ کلچر کا کردار کیا کم تھا جو آب اس بات کو بھی ثقافت کا حصہ بنایا جارہاہے کہ خواتین اور مرد جب دل چاہے آپنے کیمرے اٹھائے ،پارکوں،چھتوں اور ساحلوں پر اعلانیہ بیحیائی کو فروغ دیتے پھریں۔جب سے اس ٹک ٹاک کلچر کو فروغ ملا ہے ہم اکثر اوقات بہت ساری خبریں سن اور دیکھ چکے ہیں کہ کوئی ٹک ٹاکر چھت سے گر کر لقمہ اجل بن گیا۔کوئی دریا،نالی میں گر کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔یاد رکھیے! اسلام میں آپنی جان کی حفاظت نہ کرنا خودکشی کے مترادف ہے۔انسان کا خود آپنے آپ کو موت کے منہ میں لے جانا مثلا کسی خطرناک درخت یا گرنے والی عمارت پر چڑھنا یا کسی خطرناک چیز کے نیچے چلے جانا،منشیات وغیرہ یہ تمام امور آپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے زمرے میں آتے ہیں۔چنانچہ ہم انسان اگر واقعی یہ چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی آپنے لیے،اپنے اہل وعیال کے لیے،اپنے ملک ومعاشرے کے لیے اور پوری انسانی برادری کے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں نتیجہ خیز ثابت ہو تو ہمارے اوپر لازم ہے کہ آپنی زندگی کے مقاصد کو پہچانیں اور اسے یوں ہی بیکار نہ گزاریں بلکہ کچھ ایسا کریں کہ مرنے کے بعد بھی ہمیں اس زندگی سے فائدہ پہنچے اور دوسرے بھی اس کی روشنی میں آپنی زندگی بسر کرنے کے طور طریقے جانیں۔دنیا میں انسان کی شکل میں جو بیج ڈالا گیا ہے اگر اس کی نگرانی اور نگہبانی نہیں ہوگی اور پھر بروقت روحانی اور جسمانی اعتبار سے اس کی سینچائی نہیں ہوگی تو بیج نما انسان جیتے جی سڑ گل جائے گا اور یوں ہی مرکھپ جائے گا اور اس صورت میں نہ اس کی دنیاواخرت کی کھیتی بن پائے گی اور نہ اصل مقصد حاصل ہوپائے گا ۔اس کالم میں تمام موضوعات اور مواد کا احاطہ مقصود نہیں میں صرف ایک پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ بے مقصد،بے حیا اور سستی تفریح کے بجائے اگر سنجیدہ مواد کی طرف رجوع کیا جائے تو تفریح کے ساتھ معلومات میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔والدین سے بھی التجا ہے کہ دنیا میں شہرت اور دولت حاصل کرنے کے اور بہت ذرائع ہیں،اس لیے آپنی اولادوں کو دنیا کی ذلت اور آخرت کی رسوائی سے بچانے کے لئے ضرور اقدامات اور تربیت کریں۔ اب تو گویا یہ معمول ہی بن گیا ہے کہ جب بھی افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات سرد مہری کا شکار ہوتے ہیں یا پاکستان میں دہشت گردی کی کوئی نئی لہر آ تی ہے تو پاکستان کی جانب سے افغان مہاجرین کی ملک بدری کا منصوبہ بنایا جاتا ہے اس مرتبہ افغان مہاجرین کی ملک بدری کا منصوبہ پہلے کے مقابلے میں سنجیدگی کا حامل نظر اتا ہے کہا گیا ہے کہ افغانوں کو 31 مارچ تک پاکستان سے واپس نہیں بلایا گیا تو حکومت انہیں زبردستی افغانستان واپس بھیجنے سے دریغ نہیں کرے گی۔ اس ضمن میں مزید سنجیدہ امر یہ ہے کہ غیر ملکی مشنز کو حکومت کے ساتھ تعاون کی ہدایت کی گئی ہے تازہ اقدام کو امریکی حکومت کی بھی تائید حاصل ہے۔اطلاعات کے مطابق اب تک دارالحکومت اسلام اباد کے جڑواں شہر راولپنڈی سے 205افغان باشندوں کو گرفتار کر کے ملک بدر کیا گیا ہے ایسا لگتا ہے کہ اس مرتبہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ سنجیدگی اور خاموشی کے ساتھ افغان مہاجرین کو واپس بھجوایا جائے گا جس کے مختلف مقاصد ہو سکتے ہیں البتہ سب سے بڑی وجہ بہرحال یہی نظر اتا ہے کہ افغان حکومت نے پاکستان کے بار بار کے مطالبات کے باوجود اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کی ذمہ داری پوری نہیں کی اور حالیہ مہینوں میں پاکستان میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کی وارداتوں میں تیزی آ ئی ہے ۔(بقیہ 1 صفحہ6)
