اس بارے دو رائے کی گنجائش نہیں کہ بدعنوانی ایک ایسا ناسور ہے جسے ہر قیمت پر ختم کرنے کی ضرورت ہے خیبر پختون خواہ میں وزیراعلی علی امین گنڈا پور پر احتساب کے حوالے سے دبائو بڑھنے یا نہ بڑھنے سے قطع نظر تحریک انصاف کے منشور کے مطابق صوبے میں اختیارات کا صحیح استعمال ہی کافی نہیں بلکہ ان اختیارات کو شفافیت کے لیے بروئے کار لانے کی ذمہ داری اس سے زیادہ اہم ہونی چاہئے امر واقع یہ ہے کہ صوبے میں گزشتہ دو حکومتوں سے لے کر تحریک انصاف کی موجودہ حکومت تک کا دامن بدعنوانی کے داغ سے پاک خیال نہیں کیا جاتا حالانکہ عوام کی عوام کو بجا طور پر توقع تھی کہ تحریک انصاف کے وزرائے اعلی بانی قائد عمران خان کی ہدایات پر عمل درآمد کی سعی کے ساتھ خیبر پختون خوا کوبدعنوانی سے پاک صوبہ بنانے کی ذمہ داری کماحقہ پوری کریں گے ایک عام تاثر یہ ہے کہ ماضی کے مقابلے میں بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال میں اضافہ ہی ہوا ہے شاید یہ اسی کا ادراک ہے کہ وزیر اعلی خیبر پختون خواہ سردار علی امین گنڈاپور پر احتساب کے حوالے سے دبائو بڑھ گیا ہے جس کے بعد خیبر پختون خواہ حکومت نے احسن سعی کرتے ہوئے محکمہ انسداد رشوت ستانی کو مزید اختیارات بلکہ وسیع اختیارات دینے کا فیصلہ کر لیا ہے جسے ایک انقلابی قدم قرار دیا جا سکتا ہے نئے قانون کے تحت صوبے میں اراکین اسمبلی سے لے کر گریڈ21 تک کے سرکاری افسروں کے خلاف تحقیقات اور کاروائی ہو سکے گی واضح رہے کہ ابھی تک یہ ایک تجویز اور مسودے کی حد تک ہے جس کی کابینہ سے منظوری باقی ہے رشوت ستانی اور اختیارات کا ناجائز استعمال سیاسی بھرتیاں اور مفاد پرستی کسی ایک صوبے کی حکومت کابینہ اور اراکین اسمبلی بشمول بیوروکریسی کا وطیرہ نہیں بلکہ بدقسمتی سے ملک بھر میں کم و بیش ہر صوبے میں اور وفاقی سطح پر بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے اگرچہ اس حوالے سے پہلے سے قوانین موجود ہیں جن پر عمل درآمد کا فقدان ہے بہرحال اگر صوبائی حکومت کو اس امر کا احساس ہو ہی گیا ہے کہ اس حوالے سے مزید قانون سازی کی ضرورت ہے تو ایسا ہونا چاہیے لیکن ہمارے تئیں صرف قانون سازی کافی نہیں بلکہ اصل بات قوانین پر مکمل طور پر عمل درآمد کرا کے شفافیت کا قیام ہے اختیارات کے ناجائز استعمال کو روکنا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بدعنوانی کی روک تھام ہے ایک مرتبہ پھر اس امر کا عندیہ دیا گیا ہے کہ وزیراعلی خیبر پختون خواہ کو بانی قائد کی جانب سے صوبے میں شفافیت اور احتساب کے حوالے سے مزید ہدایت مل چکی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ ان ہدایات پر عمل درامد کا تقاضہ پورا کرنے کے لیے اگر اس کی ابتدا کابینہ کے ان اراکین کے خلاف کاروائی سے کی جائے جن کے حوالے سے ٹھوس بنیادوں پر شکایات موجود ہیں ہمارے تئیں تو یہ ایک انقلابی قدم ہو گا جس سے اراکین ‘ کابینہ اور بیورو کریسی کو یہ پیغام ملے گا کہ وہ دن گئے جب حامد میاں فاختہ اڑایا کرتے تھے صرف کابینہ میں تبدیلی اور ان کو ہٹایا جانا احتساب نہ ہوگا بلکہ اس عمل کو صرف نظر اور سیاست ومصلحت کو شفافیت پر ترجیح گردانا جائے گا بنا بریں ان عناصر کو نہ صرف کابینہ سے نکالنے کی ضرورت ہوگی بلکہ ان کے خلاف جامع تحقیقات کر کے ان تحقیقات کو انجام پذیر بھی بنانا ہوگا ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ اراکین اسمبلی کے حوالے سے اختیارات کے ناجائز استعمال اور سرکاری عمال پر دبائو ڈالنے کی اگر کوئی شکایات موصول ہوں تو ان کے خلاف بھی تحقیقات اور نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر کاروائی کی ضرورت ہوگی اس کے بعد بیوروکریسی پر ہاتھ ڈالنا ہوگا جس کے بغیر شفافیت کا تاثر قائم نہیں کیا جا سکے گا اور نہ ہی عوام کو حکومتی اقدامات پر یقین ا سکے گا ہم سمجھتے ہیں کہ بدعنوانی کے ناسور کو ہر قیمت پرجڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے شفافیہ اور احتساب کے لیے متحدہ عزم کی ضرورت ہوگی اس مقصد کے لئے حکومتی اداروں کو انسداد رشوت ستانی کے لیے فعال بنانا ہوگا اور ان پر کڑی نظر رکھنی ہوگی مشترکہ طور پر ایسے مساعی کی ضرورت ہوگی جس میں اختیارات کا غلط استعمال نہ ہو اور سبھی کو یکساں مواقع میسر آئیںنئی نسل کے خوشحال مستقبل کے لیے اگر ابھی بھی اقدامات نہ ہوئے تو پھر کب ہوں گے حکومتی اداروں اور فیصلوں میں تضادات کا شائبانہ باقی نہ رہنے دیا جائے ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ معاشی حالات خرابیوں کی جڑ ہیں اور ان خرابیوں پر قابو پانے کے لیے معاشی حالات کی بہتری اور بہتر معاشی نظام چلا کر ہی نتائج کا حصول ممکن ہو سکے گا حکومتی اداروں کو کوتاہیوں کا خمیازہ عوام کو اب تک بھگتنا پڑتا ہے کم از کم اب اس کا عزم کیا جائے کہ یہ سلسلہ یہیں رک جائے اور شفافیت و احتساب کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔
