دہشت گردوں کو پناہ دینے اور اپنی سرزمین پر ان کے پنپنے اور ان کی سرپرستی سے یکسر انکاری طالبان عبوری حکومت کا اصل چہرہ اس وقت سامنے آگیا جب افغانستان کی جانب سے دہشتگردوں کی لاشیں قبول کی گئیں ان خارجی دہشت گردوں کو ایک آپریشن میں سکیورٹی فورسز نے جہنم واصل کر دیا تھا لاشیں وصول کرنا حکومت پاکستان کے افغان حکومت پر مثر دبائو کا نتیجہ ہے طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ایک جانب افغان عبوری حکومت دہشت گردوں کی کسی بھی طرح کی مدد سے انکاری ہے اور دوسری جانب لاشوں کی وصولی کے بعد ان کو نام نہاد شہید قرار دے کر اس کا جشن بھی مناتی ہے اس دہرے معیار سے ثابت ہوتا ہے کہ افغان عبوری حکومت ایک باقاعدہ حکومت نہیں بلکہ افغانستان پر ایک غیر منظم ملیشیا کے افراد قابض ہو گئے ہیں جن کو دہشت گردوں کی سرپرستی سے عار نہیں اس سے یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ افغان عبوری حکومت پاکستان میں براہ راست دہشت گردوں کی سرپرستی میں ملوث ہے اس طرح کی حکومت افغان عوام کی کیا فلاح بہبود کے لیے کام کر سکتی ہے اور ان کا کیسے تحفظ کر سکتی ہے جو خود دوسرے ممالک میں مداخلت میں ملوث ہو جبکہ داخلی طور پر بھی خواتین کی تعلیم پر پابندی اور دیگر مختلف ایسے اقدامات جس سے معاشرے میں گھٹن اور پابندیوں کا احساس ہوتا ہو افغان معاشرے اور عوام کے لیے مشکلات کا باعث ہونا فطری امر ہے اس عبوری حکومت کے قیام کے ابتدائی دنوں میں ہزاروں لاکھوں افراد کو ملک چھوڑنا پڑا ان کے انخلا کے لیے خصوصی پروازیں چلائی گئیں اور اج بھی وہ افراد نہ تو افغانستان واپس جا سکتے ہیں اور نہ ہی وہ یورپی ممالک جن سے تعاون اور ان کی ملازمت ان افراد کا جرم ٹھہرا تھا اج وہ پاکستانی حکام کی رحم و کرم پر ہیں معاملات جس نہج پر ہیں ان حالات میں پاکستان ان افراد کو ان کے وطن واپس بھجوانے یا پھر وعدے کے مطابق یورپی ممالک کی جانب سے ان کو ویزے جاری کرنے کا وعدہ پورا ہونا چاہیے بہرحال یہ تو برسبیل تذکرہ تھا اصل مسئلہ افغان حکومت کا پاکستان میں دہشت گردی میں اگر براہ راست نہیں تو بالواسطہ ملوث ہونے کے ثبوت سامنے آگئے ہیں اورافغانستان کے ایک صوبے کے ڈپٹی گورنر کے بیٹے کی پاکستان میں ہلاکت اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے ایسے میں افغان عوام کو طالبان اور دہشت گردوں سے ہوشیار رہنا ہوگا جبکہ پاکستان اور دیگر ممالک کی اس صورتحال سے پیدا شدہ حالات میں مزید اقدامات کے لیے مشاورت ناگزیر ہے جس میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے اب وقت آگیا ہے کہ افغانستان میں پڑوسی ممالک کے خلاف اپنی سرزمین کو استعمال نہ ہونے دینے کے وعدے کی خلاف ورزی کا سختی سے نوٹس لیا جائے اور اس حوالے سے عالمی برادری اپنی ذمہ داری پوری کرے
