کتابوں کا المیہ یہ ہے کہ اب بک سیلرز نے بھی ان سے ہاتھ کھینچ لیا ہے گزشتہ روز ہمارے ایک دیرینہ کرم فرما کا شعری مجموعہ شائع ہوا ‘وہ کچھ کتابیں اٹھا کر شہر کے مشہور کتب فروشوں کے پاس فروخت کرنے کے لئے گیا مگر انہوںنے ٹکا سا جواب دیتے ہوئے کتابیں اپنی الماریوں میں رکھنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اب کتابوں کے خریدار ہی نہیں تو خواہ مخواہ آپ سے کتاب کے دس بیس کاپیاں لے کر کیوں الماریوں پر بوجھ بڑھایا جائے ‘ البتہ ایک قدیمی مشہور دکان نے چند کاپیاں اس لئے رکھ لیں کہ وہ ہمارے دوست کے افسانوں کے مجموعے پہلے بھی لے کر رکھ چکا تھا اور جن میں سے بہ مشکل ہی چند کاپیاں فروخت ہو چکی تھیں۔یہ صورتحال کم از کم پڑھنے والوں کے حوالے سے ”قحط الرجال” کی نشان دہی کرتی ہے اور اس پر ہمیں مشہور ادیب ‘ دانشور اور ماہر تعلیم اشفاق احمد کا یہ قول یاد آگیا ہے جب انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ ”جب جوتے شیشوں کی الماری میں رکھ کر سیل ہوتی ہوں اور کتابیں فٹ پاتھ پر بکتی ہوں تو سمجھ لو کہ اس قوم کو علم نہیں جوتوں کی ضرورت ہے ”۔بات ہے بھی ایسی اب دیکھ لیں کہ پشاور میں کتابوں کی دکانیں ایک ایک کرکے بند ہوتی جارہی ہیں ‘ ابتداء مال روڈ پر قائم فیروز سنز کی دکان تقریباً 25/20 برس یا اس سے بھی پہلے بند ہو گئی تھی وہاں کا م کرنے والے ایک تجربہ کار سیلز مین نے ارباب روڈ پر اپنی دکان ایم جے بکس کے نام سے کھولی مگر سامنے ہی لندن بک کمپنی اور مقابل میں ایک اور مشہور دکان سعید بک بینک (جواب اسلام آباد شفٹ ہو گئی ہے )کے علاوہ صدر روڈ پر جہاں اب کئی جوتوں کی دکانیں بن چکی ہیں وہاں ”قطب مینار” کے نام سے کتابوں کی دکان تھی مگر اب یہ سب (مرحوم) ہو چکی ہیں البتہ خیبر بازار پشاور میں ایک بہت قدیمی بک شاپ خاندانی جھگڑوں کی وجہ سے دو حصوں میں بٹ گئی جبکہ قصہ خوانی میں بھی ایک دکان تھی جس کے مالک کے بچوں نے بعد میں خیبر بازار میں ایک ہوٹل کھول کر کتابوں کی دکان سے توجہ ہٹا لی تھی ‘ اس ضمن میں تازہ ترین افسوسناک خبر یہ بھی سننے کو ملی ہے کہ حال ہی میں قصہ خوانی ہی میں قائم کتابوں کی ایک دکان جہاں مرحوم ڈاکٹر ظہور احمد اعوان اپنی کتابیں”نوپرافٹ نو لاس” کے نظریئے کے تحت رکھوا کر فروخت کروایا کرتے تھے ‘ مالک کے چند سال پہلے انتقال کرنے کے بعد ان کے برخوردار کے زیر انتظام کسی نہ کسی طور چل بلکہ گھسیٹ رہی تھی مگر کاروبار میں مندے کی وجہ سے وہ بھی بند ہو چکی ہے بلکہ یہاں تو ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کا یہ قول بھی یاد آگیا ہے کہ لوگ تو مفت کتاب ملنے کے بعد بھی پڑھنے کی زحمت نہیں کرتے اور اب تو وہ زمانہ بھی نہیں رہا کہ بقول جون ایلیاء
تو جب آئوگی تو کھویا ہوا پائوگی مجھے
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
اس تمہید کی ضرورت یوں پڑی کہ گزشتہ روز خاطر غزنوی کی صد سالہ جشن ولادت کے حوالے سے تقریب میں ان کی ذاتی لائبریری کا تذکرہ ہوا ‘ جس کے دو دن بعد ایک اور ادبی تنظیم بزم بہار ادب کے اجلاس میں ایک بار پھر نجی اور تعلیمی اداروں کی لائبریریوں کا ذکر چھڑا تو یہ انتہائی افسوسناک اطلاع ملی کہ پشاور یونیورسٹی جیسے صوبے کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے کی سنٹرل لائبریری میں اورینٹل لینگویجز یعنی اردو ‘ فارسی ‘ عربی وغیرہ کے لئے جو گوشہ مخصوص ہے اس تک رسائی کے لئے ”واش روم” سے گزر کر جانا پڑتا ہے جبکہ انگریزی اور دیگر شعبوں کی کتابیں مین ہال میں الماریوں میں سجائی گئی ہیں ۔ ایک اور افسوسناک بات یہ بھی سامنے آئی کہ جب خاطر غزنوی نے اپنی زندگی ہی میں اپنی ذاتی لائبریری کی کتابیں پشاور یونیورسٹی کو عطیہ کرنا چاہیں تاہم صرف اتنی معصوم سی خواہش کی کہ محولہ لائبریری میں خاطر صاحب کی یہ نادر ونایاب کتابیں سجانے کے لئے ایک”گوشہ خاطر غزنوی” کے نام سے مخصوص کیا جائے تو اس وقت کے وائس چانسلر(جو بعد میں صوبائی وزیر بھی رہے) یہ پیغام دیا کہ خاطر صاحب ان کو تحریری درخواست دیں جس پر محولہ ”صاحب بہادر” غور فرمانے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کریں گے خاطر صاحب ان صاحب کے اس رویئے سے خاصے کبیدہ خاطر ہوئے اور اپنی نصف کتابیں ایک نجی یونیورسٹی کو عطیہ کردیں یعنی بقول شاعر
ہوائے جہل ہے یوں مرگ ا فشاں
کتابیں شہر کی سب مر رہی ہیں
جہاں تک نجی لائبریریوں کا تعلق ہے تو شاید یہ بات قارئین کرام کے لئے نئی ہو کہ صوبے میں سب سے قدیم اور اہم ذاتی لائبریری مردان کے نوابین کی ہے جہاں انگریز کے دور ہی سے نایاب کتب کا بہت بڑا ذخیرہ موجود تھا(اب نہیں معلوم کہ یہ کتب خانہ ویسی ہی حالت میں ہے یا پھر وقت نے اس کی حالت بھی خراب کر دی ہے ‘ ویسے محولہ کتب خانے کی کتابیں صرف نمائشی مقاصد کے تحت اکٹھی نہیں کی جاتی تھیں بلکہ اس دور کے نواب خاندان کو مطالعے کا ازحد شوق تھا اور اسی وجہ سے ان خاندان نے اردو اور پشتو ادب کے فروغ میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہوئے پریمیئر شوگر ملز کے تحت مشہور زمانہ ادبی رسالہ ”قند” کے نام سے جاری کرکے ادب کی سرپرستی میں اہم کردار ادا کیا۔ یعنی بقول بشیر بدر
وہی لکھنے پڑھنے کا شوق تھا ‘ وہی لکھنے پڑھنے کا شوق ہے
ترا نام لکھنا کتاب پر ‘ ترا نام پڑھنا کتاب میں
قابل افسوس امر یہ ہے کہ پشاور کی ایک بہت اہم لائبریری جو ”میونسپل لائبریری” کہلاتی تھی اور جس میں لاتعداد نادر و نایاب کتابیں موجود تھیں ‘ ہمارے ہمدم دیرینہ (لائریرین) شین شوکت کے ریٹائرڈہو جانے کے بعد دربدر ہو کر اب نہ جانے ”کس جہاں میں کھو گئی” میونسپل کارپوریشن کی عمارت وہاں سے اٹھ جانے کے بعد یہ لائبریری کبھی کچہری گیٹ میں میونسپل کارپوریشن کی چار منزلہ عمارت میں کبھی تحصیل گورگٹھڑی کی سیلن زدہ تہہ خانے میں بقول شخصے ”خصماں نوں کھاندی رئی” اور ہم نے کئی بار ان کتابوں کے خزانے کو کسی تعلیمی ادارے ‘ خاص طور پر خواتین یونیورسٹی کے حوالے کرنے کی درخواست کی مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ‘ اب اس کا کیا حال ہے ‘ میونسپل کارپوریشن کے باقیات میٹروپولیٹن کارپوریشن کے اندر”عوامی نمائندگی” کے نام پر حکومت کرنے والوں کو بھلا اس سے کیا غرض ہو سکتی ہے ”
یادوں کے حاشیئے بھی بہت اہم ہیں محسن
دیمک لگی کتاب کوآہستہ کھو لئے
