ملک میں مہنگائی میں کمی کے حکومتی دعوئوں پر اگرچہ کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں اور دیکھا جائے تو یہ برسرزمین حقائق سے بھی کسی طور مطابقت نہیں رکھتے بلکہ اعداد و شمارکے گورکھ دھندے سے قطع نظر جس کے تحت متعلقہ اداروں کی جانب سے خصوصاً اشیائے صرف کی قیمتوں میں کمی کے اشاریئے دیئے جاتے ہیں ‘ عام مارکیٹ میں قیمتوں میں کوئی خاص کمی نہیں دکھائی دیتی جبکہ مختلف ا شیاء کی قیمتوں میں کمی کے بجائے اضافہ عوام کے لئے مشکلات کا باعث ہے ‘ اب وفاقی وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین نے اعلان کیا ہے کہ رمضان میں ہر ضلع میں چینی رعایتی قیمتوں پر دستیاب ہو گی ‘ امر واقعہ یہ ہے کہ رمضان کی آمد سے پہلے جس طرح منافع خوراور ذخیرہ اندوز مافیا اشیائے صرف جن میں چینی ‘ گھی ‘ تیل ‘ آٹا ‘ دالیں اور دیگر اشیاء شامل ہیں زیادہ منافع کمانے کی غرض سے مارکیٹ سے غائب کر دیتا ہے ‘ اس بار بھی ابھی چند روز پہلے چینی کی قیمت میں اچانک 30 روپے کلو تک اضافے کی خبریں سامنے آتی رہی ہیںاور یہ اس مافیا کا پرانا طریقہ واردات ہے جس میں شوگر ملز مالکان ‘ آڑھتی اور بڑے تاجر شامل ہوتے ہیں تاکہ اگر حکومت قیمتوں میں کمی پر مجبور بھی کرے تو بھی انہیں عوام کو لوٹنے میں آسانی ہو یعنی رمضان سے پہلے 30/20 روپے اضافے کے بعد اگر حکومت 7/5 روپے کمی کا ا علان کر بھی دے تو اس مافیا کے سٹاک کردہ ٹنوں کے حساب سے چینی پر پھر بھی انہیں بے پناہ منافع مل جائے اور عید کے بعد یہ نئی قیمتیں مستقل بنیادوں پر عوام پر تھوپ کر تجوریاں بھرنے کے بھر پور مواقع حاصل رہیں۔ابھی جبکہ مارکیٹ میں رمضان سے پہلے ہی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں تو اس موقع پرحکومت کے متعلقہ ادارے کیوں خاموش رہے جبکہ یہ تو کرشنگ کا سیزن ہے جس میں قیمتیں اصولی طور پر کم ہوجانی چاہئیں ‘ دوسری جانب جو رعایت عوام کو یوٹیلٹی سٹورز کے ذریعے عوام کو دی جاتی تھی اب اس کی امیدیں بھی دم توڑ چکی ہیں ‘ رانا تنویر حسین کو اپنی وزارت کے ذمہ داروں کو فعال بناتے ہوئے چینی کی قیمتوں میں حالیہ اچانک اضافے کے بارے میں تحقیق کراتے ہوئے اس کو واپس پرانی قیمتوں پر فروخت کو یقینی بنانے پر توجہ دینی چاہئے۔
