سیاسی سطح پرملک میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور مذاکرات کے ذریعے سیاسی مسائل کے حل سے اجتناب اور ایک دوسرے سے دوری نے جن مسائل کو جنم دیا ہے ‘ ان پر ملکی مفاد میں غور کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے ‘ اس سلسلے میں جب ہم ماضی کی سیاسی قیادت کے کردار کا جائزہ یتے ہیں تو تو سیاسی قائدین بعض معاملات پر اختلاف رکھنے کے باوجود سیاسی ڈائیلاگ ‘ گفت و شنید اور کچھ لو کچھ دو کے فارمولے پر عمل پیرا رہتے ہوئے ملک کو درپیش مسائل کے حل کی کوئی نہ کوئی راہ ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہوجاتے تھے ‘ سقوط ڈھاکہ کے بعد جب قومی اسمبلی میں آئین سازی ہو رہی تھی تو ایک جانب ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں حکومتی سیاسی رہنما تھے تو دوسری جانب اس وقت کے قائد حزب اختلاف ولی خان اور دیگر اہم رہنمائوں کے مابین آیئن سازی کے حوالے سے بارہا اختلافات پیدا ہوئے لیکن ان سب کے سامنے صرف اور صرف قومی مفاد ہی ہوتا تھا اور وہ اس حوالے سے آپس میں رابطے برقرار رکھنے کا کوئی موقع ضائع کرنے کو تیار نہیں تھے ‘ اور بالآخر پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں نے مل کر ایک متفقہ آئین اس ملک کو دے کر اپنا سیاسی کردار ادا کرنے کی ذمہ داری پوری کی ‘ اس کے بعد جب ضیاء الحق نے سیاسی رہنمائوں کے مابین انتخابات کے معاملے پر اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے(حالانکہ سیاستدانوں کے مابین مذاکرات سے تمام معاملات حل ہو چکے تھے اور بس اعلان باقی تھا) جمہوریت پر شب خون مارا ‘ ملک میں مارشل لاء نافذ کیا اور وعدے کے مطابق تین ماہ میں انتخابات کرانے کے بجائے اپنے اقتدار کو طول دیا تو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی سرکردگی میں پیپلز پارٹی اور دوسری جانب دیگر جماعتوں کے مابین ایک بار پھر اختلافات کی خلیج پیدا ہوئی تو نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم نے آگے بڑھ کر ان اختلافات کو ختم کرنے اور سیاسی رہنمائوں کو اپنے اپنے موقف میں لچک پیدا کرکے جمہوریت کی بحالی کے لئے جدوجہد پر آمادہ کیا غرض یہ تمام سیاسی قیادت ہمیشہ قومی مفاد کو مقدم رکھتے اور ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے اور مذاکرات کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا شکار کبھی نہیں رہی ‘ مگر بدقسمتی سے گزشتہ کچھ عرصے سے سیاسی فضاء میں ایسے حالات پیدا ہوئے ہیں اور ایسی سیاسی قیادت آگے آچکی ہے جو سیاسی ہم آہنگی اور باہم احترام کے جذبوں سے تہی ہے بلکہ سیاسی ڈائیلاگ کی بجائے نفرت و حقارت کے رویوں سے سرشار ہو کر ایک ایسی خلیج پیدا کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے ‘ جہاں مخالفین کوگالم گلوچ ‘چور ‘ڈکیٹ کے الزامات سے نوازتے ہوئے معاشرے کو تقسیم کرنے کی خطرناک صورتحال پیدا کی جا چکی ہے ‘ اس حوالے سے تفصیل میں جانے کے چنداں ضرورت نہیں ہے کہ ملک کا ہر ذی شعور باشندہ اس سے واقف ہے’ محولہ سیاسی قیادت صرف اور صرف ذاتی مفاد کے لئے ملک کی بنیادوں میں ”نفرتوں کا بارود” بھر کر سکون محسوس کر رہا ہے اور اقتدار سے آئینی اور قانونی طور پر محروم ہونے کے بعد جس طرح ملک کو ڈیفالٹ کرنے کے لئے گہری سازشیں کی گئیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری و ساری ہے اور آئی ایم ایف کو ماضی میں بھی قرضے فراہم کرنے کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے رہے ‘ اب بھی یہ صورتحال تبدیل نہیں ہو سکی ‘ اور وہ 26ویں ترمیم پر ایک بار پھر آئی ایم ایف سے رابطے کے بیانات سامنے آئے ہیں جو ملکی معاملات میں بیرونی مداخلت کے سوا کچھ نہیں ‘ ان حالات کا تقاضا قومی ڈائیلاگ ہیں ‘ اور اس حوالے سے تازہ ہوا کا جھونکا قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پائو کا یہ بیان ہے جس میں انہوں نے ملک کو مشکلات سے نکالنے کے لئے قومی ڈائیلاگ کو لازمی قرار دیا ہے حیات محمدخان شیر پائو شہید کی برسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قومی وطن پارٹی کے سربراہ نے کہا کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں جس کی وجہ سے سیاسی درجہ حرارت بڑھ گیا ہے اور اس کا خمیازہ ملک و قوم کو مختلف مسائل کی شکل میں بھگتنا پڑ رہا ہے انہوں نے کہا کہ ملک کو مشکلات سے نکالنے کے لئے قومی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے ‘ اس مقصد کے لئے اے پی سی بلائی جاے ۔ جہاں تک اے پی سی بلانے کی تجویز کا تعلق ہے اس کی اہمیت مسلمہ اور قابل توجہ ہے ‘ تاہم بدقسمتی سے موجودہ سیاسی صورتحال جس طرح الجھاوے کا شکار ہے اور سیاسی تقسیم اس قدر زیادہ ہو چکی ہے کہ اگرحکومت اس حوالے سے کوئی پیش رفت کر بھی لے تو ایک مخصوص جماعت ایسے مواقع سے الٹا فائدے اٹھاتے ہوئے ایسے اقدامات کو سبوتاژ کرنے سے باز نہیں آئے گی اور اپنے قید رہنما کی انانیت کے آگے سرنگوں ہو کر اے پی سی میں شرکت سے انکار کر سکتی ہے اس لئے بہتر ہو گا کہ اے پی سی حکومتی حلقوں کی بجائے اہم سیاسی قائدین باہم مل کر اپنے طور پر کانفرنس کا انعقاد کرنے کا اعلان کرے اور حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتیں اس میں شرکت کرکے قومی معاملات کا حل نکالے ۔
