امریکہ کبھی بھی پاکستان کا دوست نہیں رہا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ نے اگر کسی کے ساتھ دوستی نبھائی ہے تو صرف اور صرف اسرائیل کے ساتھ ۔ گلوبل ویلج میں مفادات کی سیاست دوستی کی بنیاد ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قیام پاکستان کے فورا بعد امریکہ نے قائد اعظم محمد علی جناح کو مبارکباد دیتے ہوئے پاکستان کو تسلیم کر لیا لیکن اس کا جھکاو ہمیشہ بھارت کی جانب رہا ۔ وہ بھارتی وزیر اعظم لعل بہادر شاستری کو وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کے مقابلے میں زیادہ مدبر سیاست دان سمجھتا تھا ۔ امریکہ یہ بھی چاہتا تھا کہ بھارت اور پاکستان مل کر کام کریں ۔ امریکہ ہمیں اچھے لڑکوں کی طرح قبول کرتا تھا ۔ یعنی ایسے لڑکے جو کمیونزم کی طرف انکھ اٹھا کر دیکھیں گے اور نہ ہی بائیں بازو کے ساتھ انکھ مچولی کریں گے ۔ روسی وزیر اعظم زیادہ شاطر نکلا ۔ اس نے پاکستانی وزیر اعظم کو ماسکو کا دورہِ کرنے کی دعوت دی ۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی تمام اقوام عالم کے ساتھ دوستی تھی ۔ اسی پالیسی کے تحت وزیر اعظم پاکستان نے ماسکو کی دعوت قبول کر لی ۔ یہ دعوت قبول کر کے حکمت عملی کا شاہکار نمونہ پیش کیا گیا ۔ امریکہ کو پاکستان کی یہ ادا ایک آنکھ نہ بھائی ۔ اس نے اسٹیبلشمنٹ میں موجود اپنے حواریوں کے ذریعے وزیراعظم پاکستان کو روس کا دورہِ منسوخ کرنے پر مجبور کر دیا ۔ امریکہ نے سیاسی چال چلتے ہوئے لیاقت علی خان کو امریکہ دورے کی دعوت بھی دے ڈالی ۔ وزیراعظم پاکستان نے امریکہ کی یہ پیشکش قبول کر لی ۔ یہ غالبا پاکستان کی پہلی بڑی سیاسی غلطی تھی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ خارجہ پالیسی کی ناکامی تھی ۔ امریکی صدور مختلف ادوار میں پاکستان کا دورہِ کرتے رہے ۔ امریکہ نے پاکستان کی مالی امداد بھی کی جس کے ہم بعد میں عادی ہو گئے ۔ اس طرح پاکستان عملی طور پر امریکہ کی جھولی میں آن گرا ۔ پچاس کی دہائی میں سیٹو اور سینٹو اتحاد میں شمولیت نے پاکستان کی غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی کو بہت نقصان پہچایا ۔ پاکستان سرد جنگ میں امریکہ کا اتحادی رہا ۔ پاک امریکہ تعلقات میں تناو کا آغاز 1965 کی جنگ کے دوران ہوا ۔ دوران جنگ اپنے ہتھیاروں کے پرزے دینے سے انکار کر دیا ۔ امریکہ نے پاکستان پر بیشتر عرصہ تجارتی پابندیاں لگا رکھی تھیں ۔ پاکستان سے لین دین کرنے والوں سے بھی سرد مہری سے پیش آتا ۔ 1971 کی جنگ میں امریکی بحری بیڑہ پاکستان کی مدد کو نہ پہنچا ۔ سقوط ڈھاکہ میں امریکہ نے خوب کردار نبھایا ۔ اس سے پہلے پاکستان نے چین امریکہ دوستی میں اہم ترین روابط مہیا کیے تھے ۔ 1965 اور 1971 میں سوویت یونین بھارت کا اتحادی تھا ۔ اس نے یہ دوستی باوقار انداز میں نبھای ۔ 1965میں بھارت کی شکست دیکھ کر جنگ بند کرای ۔ بعد میں دونوں ممالک کو تاشقند بلا کر معاہدہ بھی کرا دیا ۔ امریکہ اس موقع پر خاموش رہا ۔ سوویت یونین افغانستان جنگ میں پاکستان کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ 9/11 کے بعد پاک امریکہ تعلقات ترقیاتی شعبوں سے زیادہ سیکیورٹی اور دہشت گردی کے خاتمے سے منسلک رہے ۔ اعتماد کی کمی کے باوجود معاشی اور فوجی امداد کے زریعے دونوں ممالک کے تعلقات کو برقرار رکھا گیا ۔ بیس سالہ افغان جنگ میں امریکہ پاکستان کو ڈو مور ہی کہتا رہا ۔ وہ سمجھتا تھا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ پراکسی کر رہا ہے ۔ پاکستان دراصل شرپسندوں کی پشت پناہی کر رہا ہے ۔ پاکستان کے بقول اس جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں اس نے دی ہے ۔ پاکستان کے ہزاروں لوگ شہید ہوئے ۔ لاکھوں بے گھر ہوے ۔ مہاجرین کی بڑی تعداد پاکستانی معیشت پر بار بنی رہی ۔ ان کی وجہ سے لا اینڈ آرڈر کے مسائل پیدا ہوے ۔ اس سلسلے میں ملنے والی امریکی امداد مونگ پھلی کا دانہ نکلی ۔ پاکستان غصے میں ہے کہ اتنی قربانیوں کے باوجود امریکہ اسے افغانستان کے عدسے سے دیکھتا ہے ۔ افغان جنگ کے خاتمے پر امریکہ پاکستان کو بے یار و مددگار چھوڑ گیا ہے ۔ پاکستان کو احساس ہے کہ وہ اب امریکہ کا قریبی اتحادی نہیں رہا لیکن جنوبی ایشیا کی دوسری ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے وہ امریکہ کے علاقائی مفادات سے لا علم نہیں رہ سکتا ۔ اگرچہ افغانستان پاک امریکہ دو طرفہ تعلقات کا اہم مرکز ہے لیکن امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو چین کی نظر سے دیکھتا ہے ۔ افغانستان سے امریکی انخلا اور چین پر قابو پانے کے لیے Indo Pacifica میں اس کے محور کے بعد امریکہ کے سٹریٹیجک تناسب میں پاکستان کی اہمیت کم ہو گئی ہے ۔ امریکہ چین اور پاکستان کے حالیہ تعلقات کی اہمیت کو کم نہیں کیا جا سکتا لیکن چین کے خلاف گہرے ہوتے ہوے بھارت امریکہ سیکیورٹی تعلقات کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ چین کے ساتھ بھارت امریکہ سیکیورٹی تعلقات بارے پاکستان کی ترجیحات واضح نہیں ہیں ۔ بھارت امریکہ تعلقات جتنے بڑھیں گے اتنے ہی وہ پاک امریکہ تعلقات پر اثر انداز ہوں گے ۔ امریکی دور اندیشی اور بے حسی نے نادانستہ طور پر پاکستان کو اپنی اقتصادی اور سلامتی کی ضروریات کے سبب چین کیمپ میں دھکیل دیا ہے ۔ پاکستان میں ابھی تک مضبوط امریکی لابی موجود ہے ۔ اس لابی نے سی پیک جیسے منصوبے کو بر وقت مکمل ہونے نہیں دیا ۔ نتیجتا چین نے سی پیک کا متبادل ڈھونڈنا شروع کر دیا ہے ۔ افغانستان اور ایران نے اسے بحیرہ عرب تک رسائی کا گرین سگنل دے دیا ہے ۔ بھارت بھی اس معاملے میں گہری دلچسپی لے رہا ہے ۔ اس کی بھی حتی الامکان کوشش ہے کہ وہ چین کے ساتھ اس معاملے میں نتیجہ خیز مذاکرات کرے ۔ اس کے علاوہ بھارت اور چین دوسرے شعبوں میں بھی تعاون بڑھانے پر غور وغوص کے ساتھ ساتھ معاہدے بھی کر رہے ہیں ۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کون بناتا ہے ۔ اس سوال کا پارلیمنٹ میں کوئی جواب نہیں دیا گیا ۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ہماری خارجہ پالیسی کون بناتا ہے ۔ ہم نے امریکی دوستی میں ہمیشہ نقصان ہی اٹھایا ۔ امریکہ نے ہمیں ہر مشکل وقت میں دھوکہ دیا ۔ اپنے مفادات کے لیے ہمیں استعمال کیا ۔ ہمیں ٹشو پیپر کی طرح بھرپور استعمال کر کے پھینک دیا ۔ نتیجتا غربت اور پسماندگی ہمارا مقدر بنی ۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی ازسرنو ترتیب دینے کی ضرورت ہے ۔ قائد اعظم کے ویژن کے مطابق دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے ہوں گے ۔ امریکہ کے ساتھ دوستی ایک حد تک محدود کرنی ہو گی ۔ چین ہمارا قابلِ اعتبار دوست رہا ہے ۔ ویسے تو نہیں کہتے کہ پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند اور بحیرہ عرب سے زیادہ گہری ہے ۔ چین آنے والے وقتوں میں دنیا کی اقتصادی سپر پاور ہو گی ۔ سب سے بڑی بات یہ کہ چین ہمارا پڑوسی ہے ۔ آپ دوست تو بدل سکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیں ۔ ان سب باتوں سے ہٹ کر ہمیں اقوام عالم میں سر اٹھا کر جینے کے لیے اپنے پاوں پر کھڑا ہونا پڑے گا ۔ ہمارے پاس بے شمار قدرتی وسائل ہیں ۔ کمی ہے تو اعتماد کی اور نڈر بہادر پرخلوص لیڈرشپ کی ۔ اگر ہمیں یہ میسر آ گئی تو ہمیں امریکہ کے شکنجے سے نکلنے میں دیر نہیں لگے گی ۔
