3 112

ریٹائرمنٹ کیس’ منظورنظر ڈی ای اوز اوراحساس پروگرام

سرکاری اداروں میں تاخیر اور غفلت ضرب المثل ہے، لاکھ کوشش اور سر کھپانے کے باوجود بھی کوئی کام بمشکل ہی بروقت ہو پاتا ہے۔ سرکاری قواعد وضوابط اور جھمیلے بھی ایسے پیچیدہ ہیں کہ چاہنے کے باوجود بھی تاخیر ہوجاتی ہے، یہ ہمارے روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ فائلیں آتی جاتی رہتی ہیں اور کام ہوتے ہوتے عرصہ لگ جاتا ہے۔آج ایک ایسا برقی پیغام ملا ہے جس کا آرڈر میرے خیال میں اتنا پیچیدہ اور قواعد وضوابط والا نہیں، اچھے اداروں میں تو نہ صرف سال پہلے ہی اس کی تیاری ہوتی ہے بلکہ بوقت سبکدوشی جو ملازم کا حق ہوتا ہے وہ بھی مل جاتا ہے لیکن گورنمنٹ ہائی سکول خواجہ وس (رومن میں لکھا ہوا نام ممکن ہے میں نے درست نہ سمجا ہو) شبقدر کے ایک کارکن جس نے اپنا عہدہ نہیں لکھا کو شکایت ہے کہ ان کے والد 30-9- 2018 کو ریٹائرڈ ہوچکے ہیں لیکن بار بار درخواستیں دینے کے باوجود ان کا آرڈر نہیں کیا جا رہا ہے۔چوکیدار گل نشان نے ریٹائرمنٹ کیلئے ڈی ای او کو کئی درخواستیں دیں مگر ان کا آرڈر نہیں کیا گیا اُن کی جگہ اُن کے بیٹے سے مفت میں ڈیوٹی لی جا رہی ہے۔ ہمارے ہاں کچھ بھی ناممکن نہیں۔ صوبائی وزیرتعلیم’ سیکرٹری تعلیم اور ڈائریکٹر ایجوکیشن کو اس معاملے کا جلد سے جلد نوٹس لینا چاہئے اور مفت میں کام کروانے والے ڈی ای او اور پرنسپل کی بھی سرزنش کی جائے ان کیخلاف محکمانہ کارروائی بنتی ہے۔ میری کوشش تھی کہ احساس پروگرام پر مزید کچھ نہ لکھوں مگر مسلسل ایسی شکایات مل رہی ہیں کہ حقدار محروم اور مالدار مستفید ہو رہے ہیں’ قسم قسم کے لطیفہ نما قصے ہیں، خدا جانے سچائی کس حد تک ہے مگر سارے جھوٹے نہیں ہوسکتے۔ ان واقعات کے تناظر میں
میں اب یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو چکی ہوں کہ ااحساس پروگرام میں بھی شفافیت نہ رہی اور حقداروں کا حق مارا گیا ہے۔ ایک مثال ہی دے دوں، ایک غریب شخص کو نظرانداز کیا گیا اور ان کے کوارٹروں کے مالک کو امداد دی گئی۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر کی دیانتداری پر شک نہیں، ان کی سربراہی میں احساس پروگرام میں ماتحت عملہ کا احساس پروگرام اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مختلف نہ بنانا قابل قبول نہیں۔ ثانیہ نشتر نے جس طرح بی آئی ایس پی کی فہرستوں کی چھانٹی کروائی اس طرح احساس پروگرام کی لسٹوں کا بھی ذاتی جائزہ لیں اور دیانتدار و معتمد عملے سے چیک کروائیں تاکہ محروموں کو حق اور غیرمستحق افراد کے نام خارج کئے جائیں۔قبائلی اضلاع میں پی ایس ٹی کے طور پر دس سال سے زائد عرصے تک خدمات انجام دینے والے اساتذہ کو شکایت ہے کہ وہ مستقلی کے تو حقدار قرار پائے مگر انہیں سابقہ مدت کی سروس، پنشن گریجویٹی وغیرہ سے محروم رکھا گیا جبکہ دیگر پراجیکٹ ملازمین کو اس کا حقدار قرار دیا گیا۔ اچھی بات یہ ہے کہ کم ازکم ملازمت تو مستقل ہوئی، باقی حقوق کیلئے موجود ذرائع سے کوشش جاری رکھئے۔ متعلقہ حکام کو اس مسئلے کا جائزہ لینا چاہئے جبکہ قبائلی اضلاع کے اراکین صوبائی اسمبلی کو مسئلہ اسمبلی میں اُٹھانا چاہئے۔جامعہ عثمانیہ کے طالب علم نے مدارس کی بندش پر تعلیم کی معطلی پر فکرمندی کا اظہار کیا ہے۔ قبل ازیں میں لکھ چکی ہوں حالات بہتر ہونے تک تعلیمی ادارے کھولنے کی وکالت نہیں ہوسکتی، دینی وعصری علوم کے طلبہ ازخود مطالعہ ومحنت جاری رکھیں اور اپنا وقت ضائع نہ کریں۔اسلام بادشاہ نے لکی مروت سے دفتری اوقات کار آٹھ سے تین بجے تک کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ہائی کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود محکمہ تعلیم بندوبستی اضلاع میں ٹیچنگ کیڈر کے اساتذہ کو ڈی ای اوز تعینات کر رہی ہے اور وہ بھی گریڈ اٹھارہ کے جونیئر افسران کی تعیناتی کی جا رہی ہے جبکہ گریڈ انیس کے سینئر افسران کو دور دراز علاقوں میں تعینات کیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق پشاور میں گریڈ اٹھارہ کے منظورنظر افسر کو چارج دیا گیا ہے اور گریڈ انیس کا عہدہ جنوری سے خالی رکھا گیا ہے۔ ضلع چارسدہ میں ٹیچنگ کیڈر کا ڈی ای او’ ڈسٹرکٹ شانگلہ میں بھی ٹیچنگ کیڈر کا ڈی ای او صوابی میں گریڈ اٹھارہ کا ڈی ای اور لوئر دیر کو مارچ سے خالی رکھا گیا ہے اور اس کا چارج گریڈ اٹھارہ کے افسرکے پاس ہے، اپر دیر میں بھی اسی طرح کی صورتحال ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ سارے ڈی ای اوز کٹھ پتلیاں بنی ہوئی ہیں اور سیاسی حمایت کے بغیر وہ اپنے عہدوں پر رہ نہیں سکتے جس کی وجہ سے بھرتیوں سے لیکر دیگر معاملات تک میں گھپلے اور بدعنوانی وناانصافیاں ہورہی ہیں۔ چارسدہ میں خواتین اساتذہ نے اسمبلی کے سامنے احتجاج کر کے باقاعدہ احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ طوالت کے باعث حکومت سے سوائے توجہ اور میرٹ کی بالادستی کے مطالبے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف کے دورحکومت میں اس قسم کی صورتحال قابل قبول نہیں، اتفاق سے یاد آیا کہ گزشتہ ہفتے ایک برقی پیغام میں ریلوے کے سابق وفاقی وزیرغلام بلور سے میرے اختلافات پر حاصل وصول اور ذاتی فائدہ کا سوال کیا گیا تھا، ذاتی فائدہ کیلئے اختلاف نہیں چمچہ گیری کرنی پڑتی ہے اور میں نے ان کی مرضی پر میرٹ کو ترجیح دیکر حقداروں کو حق دینے کی کوشش کی، رہا سوال نقصان کا وقتی طور پر کیس لڑنے کے اخراجات برداشت کرنے پڑے، مزید کچھ نہیں۔ اصول پسندی میں حاصل وصول اور نقصان کو مدنظر نہیں رکھا جاتا اصول مقدم ہوتا ہے، خواہ کچھ بھی ہو۔ میں تو وہ وقت بھلا چکی تھی، معلوم نہیں برقی پیغام دینے والے کا پوچھنے کا مقصد کیا تھا، میری پروموشن پر اس واقعے کا اگر مثبت اثر نہ پڑا ہو تو منفی بھی نہیں پڑا۔ میں سارے افسران سے بھی کہوں گی کہ وہ اصول اور ضمیر پر سمجھوتہ نہ کریں، اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے مگر یہ مہنگا سودا نہیں۔
قارئین اس نمبر 9750639 0337- پر اپنی شکایات اور مسائل میسج اور وٹس ایپ کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟