گھر کی لڑائی کو باہر مت لے جائیں

حکومت کو جہاں ایک جانب آئی ایم ایف سے معاملت میں مشکلات کا سامنا ہے وہاں دوسری جانب سیاسی بنیادوں پر اس معاملے کو متنازعہ بنانے سے بھی حکومت کی مشکلات کم نہیں ہو رہیں پاکستان تحریک انصاف نے ایک مرتبہ پھر عالمی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف مشن کو ڈوزئیر اور خط بھیج دیا ہے جس کی تصدیق بھی کی گئی ہے ڈوئیر چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی بھجوایا گیا ہے جس میں عام انتخابات میں دھاندلی سے متعلق شواہد موجود ہیں ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کو الیکشن 2024 سے متعلق غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ بھی بھجوائی گئی ہے چیف جسٹس کو بھجوائے گئے خط اور تفصیلات کو بھی آئی ایم ایف وفت کو بھجوایا گیا ہے درین اثنا بانی پی ٹی آئی عمران خان نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو تیسرا خط لکھ دیا ہے جس میں ایک مرتبہ پھر مبینہ انتخابی دھاندلی کا معاملہ اٹھایا گیا ہے جبکہ قبل ازیں کے بھجوائے گئے دو خطوط کی رسید تک نہیں ملی اور نہ ہی اس پر کسی رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے درین اثناء آئی ایم ایف کی ایک اور شرط پوری کرنے کی غرض سے کابینہ نے سول سرونٹس ایکٹ 1973 میں نئی دفعہ شامل کرنے کی منظوری دی ہے ترمیم کے تحت سرکاری ملازمین کو اپنے اور اہل خانہ کے ملکی اور غیر ملکی اثاثے بھی ظاہر کرنے ہوں گے امر واقع یہ ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف میں معاملت جہاں ایک جانب ماہرین معاشیات اور پالیسی بنانے والوں میں زیر بحث ہے وہاں دوسری جانب حکومت آئی ایم ایف سے مزید معاملات کو سنوارنے کے لیے کوشاں ہے جس میں سے ایک سرکاری ملازمین کے اثاثوں کے حوالے سے ہے اس کے علاوہ بھی ائی ایم ایف کی مختلف شرائط پر حکومت پیشرفت کی سعی میں ہے ان شرائط کی تکمیل حکومت کے لیے جہاں مشکل مرحلہ ہے وہاں دوسری جانب حکومت کو داخلی طور پر جس سیاسی چیلنجوں کا سامنا ہے اس سے اسلام آباد پر دبائو بڑھ جانا فطری امر ہے۔ بہرحال سیاسی معاملات سے قطع نظر اس وقت حکومت کو جس مشکل صورتحال کا سامنا ہے وہ ان حالات میں آئی ایم ایف سے مذاکرات اور قرضے کی مزید قسطوں کی وصولی کو یقینی بنانے کا ہے اگرچہ قبل ازیں بھی تحریک انصاف کی جانب سے آئی ایم ایف کو خطوط لکھ کر پاک آئی ایم ایف ڈیل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی تھی لیکن حکومت آئی ایم ایف سے مذاکرات اور معاملات کرنے میں کامیابی کامیاب ہو گئی تھی ایک مرتبہ پھر جو صورتحال ملک میں پیدا ہو رہی ہے قطع نظر اس کے سیاسی تضادات کے یہ ملک و قوم کے لیے کوئی مثبت صورتحال نہیں سیاسی معاملات کے حوالے سے چیف جسٹس اورچیف آف آرمی سٹاف کو خط لکھنا اور خاص طور پر آئی ایم ایف اور حکومتی مذاکرات و معاملات پر اثر انداز ہونے کی کوشش سے اجتناب بہتر ہوتا جس کے اثرات صرف سیاسی ہی نہیں بلکہ اس کے دیگر اثرات بھی ہو سکتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان معاملات میں رکاوٹ صرف سیاسی ظاہری طور پر جو سیاسی معاملات اور اختلافات ہیں اس سے قطع نظر تحریک انصاف حکومت سے ان معاملات میں نرمی اور رعایت کی بھی خواہاں ہے جو شاید حکومت کے پاس نہیں جو غیر حقیقت پسندانہ امر ہے تحریک انصاف ایک جانب جہاں حکومت سے مذاکرات کا عمل شروع کرتی ہے وہاں دوسری جانب درپردہ قوتوں سے ان کے معاملات اس طرح کی رعایت کے حصول کیلئے ہو رہی ہے جو حکومتی راہداریوں کے راستے اور اس کے ذریعے ہی ممکن ہو سکیں گے مگر تحریک انصاف حکومتی شمولیت کے بغیر براہ راست حصول رعایت کی تگ و دو میں مختلف حربے آزما رہی ہے جن میں تازہ حربہ ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف کو خط لکھنا ہے۔ تحریک انصاف جس طرح حکومت اور مقتدرہ پر اثر انداز ہونے کی سعی میں ہے اس کی نہ تو کامیابی کا کوئی امکان نظر آتا ہے اور نہ ہی یہ مناسب عمل ہے بہتر ہوگا کہ درون خانہ چلنے والے معاملات میں اغیار کی مدد طلب کرنے کی بجائے مل بیٹھ کر معاملات طے کیے جائیں۔توقع کی جانی چاہئے کہ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان چلنے والی چپقلش میں مزید اضافہ روکنے کیلئے طرفین کی قیادت غور کرے گی اور ایسی شخصیات اور ادارے جن کا سیاست اور سیاسی معاملات سے دور کا بھی تعلق نہ ہوان کو ملوث کرنے سے گریز کیا جائے گاسیاسی اختلافات کا خاتمہ مذاکرات کے ذریعے ہی ہونا چاہئے ملک کو موجودہ معاشی مسائل سے نکالنے کے حوالے سے جہاں حکومت کا کردار ضروری ہے وہاں حزب اختلاف کے کردار کو بھی اس لئے نظر نہیں کیا جا سکتا کہ قرض دہندہ ادارے کی ایک بڑی شرط ملک میں داخلی استحکام اور بے چینی کا خاتمہ بھی ہے جس کا راستہ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان مفاہمت اور ہر ایک کا اپنے جمہوری کردار کی ادائیگی سے نکل سکتا ہے۔