خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سمیت ملک کے21 اضلاع میں گندے پانی کے حاصل کیے گئے نمونوں کے تجزیے کے بعد ملک کے21 اضلاع میں پولیو وائرس کی تصدیق اس امر کے تعین کیلئے کافی ہے کہ پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی مہم ناکام ہو گئی ہے۔تمام تر تمام تر مساعی کے باوجود پولیو مہم کی ناکامی کی وجوہات کا اب نئے سرے سے جائزہ لینے میں اب تاخیر کی گنجائش نہیں۔سب سے پہلے اس بات کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ اب تک ہونیوالی تمام مساعی رائیگاں رہیں اس امر کو تسلیم کئے بغیر اب چارہ نہیں کہ اب تک بروئے کار لائے گئے اقدامات اور بھاری وسائل کا استعمال لا حاصل ثابت ہوئیں نیز اس امر کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے کہ پولیو وائرس کے خاتمے کے قریب ہونے کے دعوؤں کی حقیقت کیا تھی۔بہرحال صورتحال کے تناظر میں یہ مہم سانپ اور سیڑھی کا کھیل بن گئی ہے جس میں اٹھایا گیا کوئی بھی قدم یقینی نہیں ہوتا۔۔ایسے میں صورت حال کا از سرِ نو جائزہ ہی بہتر راستہ ہوگا۔ہمارے تئیں بار بار کی نا کامیابی سے بچنے کیلئے مسائل کے حل کے حوالے سے نئی کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ کم از کم اگر پولیو کے خاتمے کی منزل حاصل نہ بھی کی جا سکے تو اس میں خاطرخواہ کمی لائی جا سکے ملک کے21 اضلا ع جس میں صوبائی دارالحکومت پشاور خاص طور پر شامل ہے یہاں سے حاصل کیے گئے آلودہ پانی کے نمونوں میں پولیو کے وائرس کی تصدیق کے بعد اس امر کو تقویت ملتی ہے کہ پولیو کے انسداد کے حوالے سے جن مسائل کا تذکرہ ہوتا ہے ان کے حل میں دلچسپی کی کمی ہے ان کا بار بار تذکرہ ناکامی کو چھپانے کے عذر تراشنے کیلئے ہی ہوتا ہے۔عملی طور پر اس پر کام کی صورتحال برعکس ہے صوبائی در حکومت پشاور میں21 سے25 ہزار کی تعداد میں پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کرنیوالوں کی تصدیق خود اس مہم سے وابستہ ذمہ دار عناصر کی طرف سے کی جا چکی ہے جس کی تردید کی گنجائش نہیں۔ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صوبائی دار الحکومت پشاور میں اگر یہ صورتحال ہے تو باقی اضلاع جہاں پولیو مہم کی مختلف وجوہات کی بناء پر مخالفت پائی جاتی ہے وہاں کیا عالم ہوگا پولیو مہم کے حوالے سے سخت قسم کے شکوک و شبہات اس وقت پیدا ہوئے تھے جب اس مہم کو مبینہ طور پر جاسوسی کیلئے استعمال کیا گیا علاوہ ازیں بھی اس کیخلاف مختلف بنیادوں پر پروپیگنڈے ہوتے آئے ہیں لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں جن کا بار بار حوالہ دیا جائے یہاں سوال یہ نہیں ہے کہ لوگ انکاری کیوں ہیں سوال یہ ہے کہ جہاں کے لوگ انکاری نہیں اور انسداد پولیو کے قطرے پلانے کا عمل پرخطر بھی نہیں وہاں تک پولیو وائرس کی رسائی کیسے ہوئی اب یہ کوئی عذر نہیں رہا کہ پولیو وائرس افغانستان سے آنیوالوں کے ذریعے منتقل ہوتی ہے اس لئے کہ اب افغانستان میں پولیو کے قطرے پلانے کی صورتحال بہتر ہوئی ہے اور اس کی مخالفت میں بھی کمی آئی ہے افغانستان سے غیر معروف اور دشوار راستوں سے آ نے کا عمل اگر مکمل طور پر بند نہیں بھی ہوا ہے تب بھی اس میں بہت حد تک کمی ضرور ائی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اب ایسا ممکن ہی نہیں تو غلط نہیں ہوگا اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ اب بھی غیر قانونی آمد و رفت ہوتی ہے تو دہشت گردوں کی آمد کی حد تک تو اس کی گنجائش ہو بھی خواتین اور بچوں کی اس طرح سے آ مد و رفت ناممکن نظر آتا ہے ایسے میں اس حیلے کو عذر لنگ ہی قرار دیا جانا چاہیے اور اگر یہ وجہ واقعی موجود ہے تو سکیورٹی کے اداروں سے ملکر اس کے تدارک کا کوئی مزید بہتر طریقہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے آخر کب تک ایک ہی حیلہ اور بہانہ تراش کر اپنی ناکامی پر پردہ ڈا لا جاتا رہے گا۔اس ناکامی کا حاصل یہ ہونا چاہیے کہ پولیو کے قطرے پلانے کے انتظامات کے تمام مراحل کا از سر نو جائزہ لیا جائے اس عمل کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے کہ فیلڈ میں پولیو کے خاتمے سے متعلق افسران نے جا کر معائنہ کرنے کی زحمت کر تے بھی ہیں یا نہیں ہر ضلع میں اس کی کتنی مثالیں موجود ہیں اور ان کی جانب سے خامیوں کا جائزہ لیکر ان کے خاتمے کیلئے کیا اقدامات کیے گئے آیا ایسا تو نہیں کہ انتظامی افسران تگ و دو کے بعد اپنی پوسٹنگ تو کرا لیتے ہیں اور عہدے حاصل کرنے کے بعد تنخواہ اور مراعات کے علاوہ ان کی کسی چیز میں دلچسپی ہی نہیں رہتی پولیو مہم چلانے والوں کی نگرانی ہونی چاہیے اور جعلی مارکنگ کے جو الزامات کا سکینڈل ایک مرتبہ سامنے آیا تھا اس کی از سر نو تحقیق کے بعد اس کے خاتمے ے کیلئے اقدامات کا جائزہ لیا جانا چاہیے ایک اور بڑی خامی کی بار بار نشاندہی ہوتی ہے کہ پولیو کے قطرے مقررہ طبی معیار کے مطابق سٹور نہیں ہوتے اور خاص طور پر پولیو ورکرز کے پاس قطرے کو مقررہ ٹمپریچر پر محفوظ بنا کر ساتھ رکھنے کے انتظامات شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ عدم احتیاط کے باعث پولیو قطروں کے مؤثر ہونے میں کمی کا امکان رد نہیں کیا جانا چاہیے ممکن ہے قطرے پلانے کے باوجود پولیو وائرس کی موجودگی کے ثبوت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو۔
