پاکستان تحریک انصاف اور وفاقی حکومت کے درمیان اگر چہ ایک جانب مذاکرات بغیر کسی نتیجہ کے اختتام پذیر ہوئے تو دوسری جانب صوبائی حکومت خیبر پختونخوا اور وفاقی حکومت کے درمیان مفاہمت کے آثار بڑے واضح ہیں جن کی تردید نہیں ہو سکتی خیبر پختونخوا کے چیف سیکرٹری کی تبدیلی اور صوبائی حکومت کی مرضی سے نئے چیف سیکرٹری کے تقرر کے بعد اب دونوں حکومتوں کے درمیان مفاہمت اور تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز ہونا چاہیے ،قبل ازیں قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے پبلک اکاؤنٹس کے چیئرمین کی تقرری اور آئی جی خیبر پختونخوا کے تبادلے سے بھی تعاون اور مفاہمت کا اشارہ ملا تھا ،چیف سیکرٹری کی تقرری گویا اس کی تصدیق ہے جو مثبت اور خوش آئند امر ہے۔صوبائی اور وفاقی حکومت کے درمیان سیاسی بعد ہونے کے باوجود حکومتی سطح پر تعاون آئینی اور ملکی ضرورت ہے خاص طور پر اب جبکہ بجٹ کی تیاری شروع ہونیوالی ہے مفاہمانہ فضا کا ہونا صوبے کیلئے ناگزیر ہے۔ لیکن دوسری جانب تحریک انصاف کے با نی قائد اور بعض دیگر رہنماؤں کی جانب سے ملک کی عسکری قیادت اور فوج کے حوالے سے وقتا وقتا ایسے بیانات دئیے جاتے ہیں جو کم سے کم الفاظ میں بھی مناسب نہیں ایک مرتبہ پھر خط لکھنے کے حوالے سے معاملات زیر گردش ہیں جس سے ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف کے قائدین کو خط لکھنا مطلوب نہیں بلکہ میڈیا میں اس کا پرچار مطلوب ہے وہ اس طرح سے میڈیا میں بار بار سامنے آنے کا حربہ اختیار کر رہے ہیں چونکہ عسکری قیادت کی جانب سے اکثر بہت سارے معاملات کا جواب نہیں دیا جاتا لیکن بالآخر ارمی چیف نے یہ کہہ کر سارا معاملہ ختم کر دیا کہ خط کی باتیں سب چالیں ،کوئی خط نہیں آیا، ملا بھی تو نہیں پڑھوں گا، اگر خط موصول ہوا تو وزیراعظم کو بھجوا دوں گا، ملک بہت اچھے انداز میں آگے بڑھ رہا ہے، ترقی ہو رہی ہے صرف خط ہی بارے مؤقف نہیں بلکہ آرمی چیف کی جانب سے حکومت پر اعتماد کا بھی اعادہ کیا گیا ،بناء بریں ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی طور پر جو بھی حکمت عملی اختیار کی جائے اس کے اثرات صوبائی اور وفاقی حکومت کے تعلقات اور عسکری اداروں پر نہ پڑیں، ان کو سیاست میں گھسیٹنا کسی کے مفاد میں نہیں۔ تحریک انصاف کے قائدین کو آرمی چیف کے واضح جواب کے بعد اب جواب مل گیا ہوگا جس کے بعد توقع کی جانی چاہیے کہ مزید ایسے اقدامات اٹھانے سے گریز کیا جائیگا جو بلاوجہ اور بے نتیجہ ثابت ہوں اور خواہ مخواہ کی جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہوں۔
