غزہ پر قبضے کا امریکی منصوبہ

غزہ کی جنگ کے آغاز سے چند ہی دن پہلے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے یہ انکشاف کیا تھا کہ امریکہ فلسطین فوجی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ محمود عباس کے اس بیان کے چند ہی دن بعد حماس نے طوفان الاقصیٰ کے نام سے اسرائیل پر بڑا حملہ کیا تھا۔جب محمود عباس یہ بات کر رہے تھے تواس وقت یہ بات پوری طرح کھل نہ سکی تھی مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی روایتی صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے امریکہ کے پوشیدہ عزائم کا کھل کر اظہار کیا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی منصوبوں کو عیاں کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی تعمیر نو تک اس کے باشندوں کو اْردن اور مصرسمیت کئی دوسرے ممالک میں آباد کرنا چاہئے جہاں وہ زیادہ آرام سے پرسکون زندگی گزار سکیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے عرب ملکوں پر دبائو بڑھانے کا ایک سلسلہ بھی شروع کردیا ہے۔اْردن کے فرماں رواں شاہ عبداللہ وائٹ ہائوس طلب کر لئے گئے ہیں۔مصر کے حکمران عبدالفتح السیسی کے ساتھ بھی بات چیت شروع کر دی گئی ہے۔اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اسرائیل کے ٹی وی چینل 14کو انٹرویو دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ سعودی عرب کے پاس کافی زمین ہے وہ بھی فلسطینیوں کا اپنے ہاں آباد کر سکتا ہے۔جس کے جواب میں سعودی عرب کی بااثر شوریٰ کونسل کے رکن یوسف بن طراد السعدون نے کہا ہے کہ امریکی صدر کو چاہئے وہ اسرائیلیوں کو الاسکا میں آباد کریں۔ اور پھر گرین لینڈ پر قبضہ کرکے انہیں وہاں منتقل کریں۔انہوں نے ٹرمپ کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہامریکہ کی خارجہ پالیسی فلسطین پر اسرائیل کے قبضے اور نسل کشی کو جائز ٹھہرا رہی ہے لیکن یہ انسانیت کیخلاف جرائم ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہر شخص جانتا ہے کہ غزہ کو خالی کرانے کا منصوبہ صیہونیوں نے بنایا ہے اور منظور کیا ہے جس کے بعد اسے وائٹ ہائوس کے حوالے کیا گیا ہے۔ سعودی شوریٰ کونسل ایک مشاورتی ادارہ ہے جس کے ارکان کی نامزدگی بادشاہ کرتا ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم کے ریمارکس اس وقت سامنے آئے تھے جب سعودی عرب کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ اسرائیل کیساتھ معمول کے تعلقات اس وقت بحال ہوں گے جب فلسطینی ریاست کیلئے واضح راستہ اپنایا جائیگا۔فلسطینی اتھارٹی کی وزرات خارجہ کی طرف سے اس تجویز کو نسل پرستانہ اور امن دشمنی قرار دیا گیا ہے۔تنظیم آزادی فلسطین کے سیکرٹری جنرل حسین الشیخ نے نیتن یاہو کے ریمارکس کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ فلسطینی ریاست فلسطین کی سرزمین پر بنے گی۔ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کے بعد مشرق وسطیٰ میں
عارضی جنگ بندی سے پیدا ہونیوالی دائمی امن کی موہوم امید ایک بار پھر ٹوٹنے لگی ہے۔ حماس نے اسرائیل کی طرف سے ہونیوالی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے بعد قیدیوں کی رہائی روک دی ہے جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینیوں کو کھلی دھمکیاںدینے کا انداز اپنالیا ہے۔ٹرمپ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں اور مستقبل کے غزہ میں حماس کاکوئی کردار نہیں ہوگا۔انہوں نے جنگ بندی کا معاہدہ منسوخ کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔حماس نے اس الٹی میٹم کو مسترد کر دیا ہے۔امریکہ مشرق وسطیٰ میں اپنے اتحادی بادشاہوں اور فوجی حکمرانوں کے ذریعے اپنے مقاصد کی تکمیل کرتا رہا ہے۔مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا پہلا مقصد اسرائیل کا تحفظ اور سلامتی رہا ہے۔امریکہ نے عرب دنیا کو ہمیشہ اسرائیل کی عینک سے دیکھا۔یہ ایک ایسا فریضہ تھا جو ڈوبتی ہوئی عالمی طاقت برطانیہ نے امریکہ کو سونپا تھا اور امریکہ نے برطانیہ کے جانشین کے طور پر یہ ذمہ داری پوری دیانت داری سے ادا کی۔عرب دنیا میں جمہوریت کا راستہ روکنا ،آمریتوں کو مضبوط کرنا کبھی کسی تھکے ہارے حکمران کا تختہ اْلٹنا اور تازہ دم شخص کو آگے لانا جہاں اسرائیل کی مخالفت کا چراغ جلتا ہوا محسوس ہوا اسے حیلوں بہانوں سے بجھا دینا غرض یہ کہ امریکہ نے عرب دنیا کی اتھل پتھل کا
ہر قدم اسی زاویے کے تحت اْٹھایا۔ عرب رائے عامہ میںاس پالیسی کا ردعمل بھی ہوتا رہا مگر نائن الیون نے امریکہ کو عرب دنیا پر اپنا ایجنڈا مسلط کرنے اور عرب رائے عامہ کے جذبات کو کچلنے کا ایک نادر موقع فراہم کیا۔اب امریکہ از خود مشرق وسطیٰ میں آنا چاہتا ہے تو یہ بھی اسرائیل کے گرد قبروں کا ایک حصار بنانے کی پالیسی ہے۔اسرائیل کی طاقت اور توسیع پسندی کا الائو جلتا رہے اور اس کے گرد کمزور ناتواں اور نحیف عرب ممالک اس الائو سے ہاتھ تاپتے رہیں۔حماس حزب اللہ اور حوثی سب اس حصار کی ناکامی اور شکست وریخت کا نام تھا اسی لئے امریکہ اور اسرائیل نے اس رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے باقاعدہ طور پر مشرق وسطیٰ میں ڈیرہ ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔امریکہ مشرق وسطیٰ میں براہ راست آتا ہے تو یہ اس کیلئے افغانستان میں داخلے کی طرح کا فیصلہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ایران ،چین اور روس بہرطور اس خطے میں امریکہ کی موجودگی نہیں چاہتے۔تینوں ملکوں کے حکمرانوں کی ایک معنی خیز تصویر ڈیڑھ سال قبل سامنے آئی تھی جس میں مشرق وسطیٰ کے ہی ایک دورے میں تینوں حکمران دوربین سے خلاء میں دیکھتے ہوئے نظرآرہے تھے یوں لگ رہا تھا کہ انہیں کسی کے خلاء سے زمین پر اْترنے کا انتظار اور تلاش ہو۔اس تصویر میں امریکہ کیلئے کوئی پیغام ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  زرعی زمینوں کو لاحق خطرات