ٹھگوں کی ایک تاریخ ہے۔وہ شخص جو بظاہر خود کو شریف ظاہر کرکے واردات ڈالتا ہے یا روپ بدل کر کسی کو لوٹتا ہے وہ ٹھگ کہلاتا ہے۔ پرانے زمانے میں ٹھگوں کی باقاعدہ تربیت ہوتی تھی اور ان کی ہندوستان میں تعداد اتنی بڑھ گئی تھی کہ انگریزوں کو ان کی سرکوبی کیلئے الگ سے فورس بنانی پڑی تھی۔ اس زمانے میں ٹھگوں کی تعداد معاشرے میں بہت بڑھ گئی ہے۔ ہر شخص کسی نہ کسی حیثیت میں معاشرے کے لوگوں کو ٹھگ رہا ہوتا ہے۔ لیکن آج کل ٹھگوں کی ایک ایسی قسم ہمارے معاشرے میں پنپ رہی ہے جس کا ادراک کم ہی لوگوں کو ہوتا ہے۔ یہ لوگ سیاسی ٹھگ ہوتے ہیں۔ جب بھی کوئی حکومت برسراقتدار آتی ہے تو یہ لوگ حکومت میں موجود لوگوں وزیروں ، مشیروں اور سیاسی رہنماؤں کی قربت حاصل کرتے ہیں۔یہ لوگ ان سیاسی لوگوں کو یہ باور کرادیتے ہیں کہ وہ دنیا میں ان کے سب سے بڑے خیر خواہ ہیں۔ اور ان کیلئے جان بھی دے سکتے ہیں۔ ایسے ٹھگوں میں معاشرے کے ہرطرح کے لوگ شامل ہیں یہاں تک کہ سرکاری ملازمین بھی اس سہولت سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ سیاسی حکومتوں میں آنیوالے لوگ جو وزیر مشیر یا کوئی اور عہدہ حاصل کرتے ہیں یہ سب عوامی لوگ ہوتے ہیں ان کے قریب ہونا زیادہ مشکل کام نہیں ہوتا۔ یہ جو ہمارے معاشرے کے ٹھگ ہیں وہ باقاعدہ ان سیاسی لوگوں پر سرمایہ کاری بھی کرتے ہیں۔ ان کی دعوتیں کرتے ہیں اورلوگوں اور ضرورت مندوں سے لیکر ان کو تحفے تحائف بھی دیتے ہیں۔ جب یہ ٹھگ کسی وزیر یا مشیر کو اپنے شیشے میں اْتار لیتے ہیں اس کے بعد یہ اپنی واردات ڈالتے ہیں اور ان وزیر وں اور مشیروں کے نام پر غیر قانونی کام اور پیسے بٹورتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ خیال عام ہے کہ سیاسی لوگ کرپٹ ہوتے ہیں اس میں کس حد تک صداقت ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر ان سیاسی وزیر اور مشیروں کی نوے فیصد بد نامی ان ٹھگوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ ٹھگ اس باریکی سے واردات ڈالتے ہیں کہ ان وزیر وں اور مشیروں کو حکومت سے فارغ ہونے کے بعد ہی پتہ چلتا ہے۔ یہ ٹھگ لوگوں کوٹھیکے دلواتے ہیں۔ لوگوں کو نوکریاں دلواتے ہیں ، لوگوں کی ٹرانسفر پوسٹنگ کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان کا کاروبار محکمہ جاتی اور انتظامی اختیار تک چلا جاتا ہے۔ یوں کرپشن کا ایک ایسا سلسلہ ترتیب پاتا ہے جس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا۔ یہ سب سیاسی حکومتوں اور وزیروں مشیروں کے کھاتے میں لکھا جاتا ہے حالانکہ وہ اس سے بے خبر ہوتے ہیں۔ اگر یہ سیاسی وزیر و مشیر دس منٹ غور و فکر کریں کہ یہ جو لوگ اچانک ان کے ہمنوا اور ہمدرد بن کر ان کے اردگرد منڈلا رہے ہیں یہ کون ہیں ان کا ماضی کیا ہے ان کا تعلق کس سے ہے اور ان کے اس التفات کا مقصد کیا ہے تو ان کو فوراً سمجھ آجائے گی کہ یہ ٹھگ ہیں۔ ایسے سینکڑوں ٹھگ آپ کو پشاور میں ملیں گے جو دوسرے ضلعوں سے آکر یہاں ڈیرے ڈالتے ہیں اور بہت سارے اس شہر میں بھی موجود ہیں۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ان ٹھگوںتعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اب تو صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ کہ ٹھگ کسی وزیر مشیر کیساتھ ایک دو ملاقاتیں کرکے ان کے ساتھ تصویریں کھینچوا کر ان کے نام پر ہر غلط کام کرنے شروع کردیتے ہیں۔عام سرکاری لوگ یا عوام کی اتنی جرات نہیں ہوتی کہ وہ وزیر یا مشیر تک رسائی حاصل کریں اور ان سے تصدیق کرسکیں کہ یہ ٹھگ جو کچھ کہہ یا کروا رہا ہے اس کا حکم وزیر یا مشیر نے دیا ہے یہ ٹھگ ان وزیر اور مشیروں کے پی اے اور سٹاف کیساتھ تعلقات بنا لیتے ہیں اور ان کے دفاتر کے سرکاری ٹیلی فون کا استعمال کرتے ہیں تو اس سے محکمے کے لوگ اور دیگر لوگ یہ یقین کربیٹھے ہیں کہ یہ سب کچھ وزیر یا مشیر کے حکم پر ہورہا ہے۔ یہ اتنا بڑا کاروبار بن چکا ہے کہ سرکاری ملازمین اچھی پوسٹنگ اور ٹرانسفر کیلئے ان لوگوں سے رابطہ کرتے ہیں۔یہ ٹھگ ہر اس جگہ پہنچتے ہیں جہاں وزیر یا مشیر جاتا ہے یہ ان کیساتھ بے تکلفی اتنی بڑھا لیتے ہیں کہ عام آدمی یہ تصور بھی نہیں کرسکتا کہ یہ دراصل ٹھگ ہیں۔ اب تو بہت سارے سرکاری ملازمین بھی اس دھندے میں شامل
ہوگئے ہیں وہ اپنی دفتر ی ڈیوٹی سرانجام دینے کی جگہ سارا دن ان وزیر اور مشیروں کے اردگرد منڈلاتے رہتے ہیں اور لوگوں کو ٹھگتے رہتے ہیں۔ یہ ٹھگ اتنے ماہر ہوتے ہیں کہ بڑی بڑی پوسٹنگ تک کروا لیتے ہیں اور جن کی کرواتے ہیں وہ کرپٹ ہوتے ہیں یوں یہ سب حکومت کے کھاتے میں جاتا ہے۔ یہ سلسلہ ایم ایم اے کی حکومت سے شروع ہوا تھا اور پھر اے این پی کی حکومت میں اس میں تیزی آگئی تھی اس کے بعد پی ٹی آئی کی حکومتوں میں تو اس نے بہت ترقی کرلی ہے۔ یہ وہ ناسور ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں غیرقانونی کاموں کو دوام ملتا ہے اور حکومتیں بدنام ہوتی ہیں۔ یہ ٹھگ راتوں رات لاکھ پتی اور کروڑ پتی بن جاتے ہیں جبکہ ان کا کوئی عملی کاروبار بھی نہیں ہوتا۔جو ملازمین ہیں اور ٹھگنے کے اس کاروبار سے وابستہ ہیں انہیں کوئی پوچھنے کی جرات ہی نہیں کرسکتا۔حکومت کے ذمہ دار لوگوں کو اس مسئلہ پر سنجیدگی سے سوچنا چاہئیے اور ایسے تمام لوگوں سے لاتعلقی کا اظہار کرنا چاہئیے جو ان کے نام پر کرپشن کرتے ہیں یا غیرقانونی دھندے چلاتے ہیں۔ اس لئے کہ عوام میں حکومتوں کا تاثر عملی کاموں سے جاتا ہے یہ سب کچھ ان وزیروں اور مشیروں کو تو نظر نہیں آرہا ہوتا مگر عوام سب کچھ دیکھ رہی ہوتی ہے مگر عوام کی سمجھ اتنی زیادہ نہیں ہے وہ ان سب کاموں کو ان وزیر وں اور مشیروں کے کھاتے میں ڈالتے ہیں جو دراصل یہ ٹھگ کرتے ہیں اور کرواتے ہیں۔ اس سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان افراد کی سنجیدگی کیساتھ نشان دہی کی جائے اور ان سے لاتعلقی کا اظہار کیا جائے ، ان لوگوں کی دعوتوں پر جانے سے اجتناب کیا
جائے۔ ان کا اپنے دفتر میں داخلہ بند کردیا جائے اور ان کی رسائی سرکاری ٹیلی فون تک ختم کردی جائے اور ہر وزیر اور مشیر بلا سوچے سمجھے ان کے لائے ہوئے درخواستوں اور کاغذوں پر دستخط نہ کریں۔ بہت سارے خود مختار اداروں میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ایک د و دفعہ کسی وزیر کیساتھ اٹھ بیٹھ کر تصویریں کھینچوا کر پھر ان اداروں میں اپنی مان مانی کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ وہ سرعام یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ وہ ان اداروں کے سربراہ لگوا سکتے ہیں اور ہٹوا بھی سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ایسا ہوتا بھی ہے۔ اس لئے اب وہ سارے موقع پرست ان لوگوں کی آڑ لے کر واردتیں ڈالتے ہیں اور ادارے تباہی کی طرف جارہے ہیں۔ اگر وزیر اورمشیر کسی بھی ادارے میں جاتے ہیں تو انہیں خاص خیال رکھنا چاہئیے کہ وہ کسی بھی دوسرے بندے کو اپنے ساتھ نہ لے کر جائیں اور کسی بندے کو دوران میٹنگ جومتعلقہ نہیںہوتا اپنے پاس نہ بٹھائیں اس لئے کہ یہی لوگ ٹھگ ہوتے ہیں جو بعد میں ان کا نام کا استعمال کرکے ان کے بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ گڈ گورننس کیلئے یہ بہت ضروری ہوتا ہے کہ مڈل مین سے بچا جائے اور اداروں اور اداروں کے سربراہ کیساتھ براہ راست تعلق رکھاجائے اور ورنہ جو بھی مڈل مین ہوگا وہ ٹھگ بن جائیگا۔ موجود ہ حکومت میں زیادہ تر نوجوان وزیر اور مشیر ہیں ان کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے اس لئے کہ ان کا سیاسی کیرئیر ابھی بن رہا ہوتا ہے اور ایسے لوگوں پر بھروسہ کرکے وہ اپنا نقصان کروالیتے ہیں۔ جس دن ہمارے صوبہ میں ان ٹھگوں کو لگام ڈالی گئی تو وہ دن واقعی میں اس صوبہ کی ترقی کا دن ہوگا اس لئے کہ یہ ٹھگ چن چن کر کرپٹ اور نااہل لوگوں کو قابل اور بہترین بنا کر وزیر وں اور مشیروں کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اس کے بعد جب ان لوگوں کو اختیار دیا جاتا ہے تو اداروں کو تباہ کرکے رکھ دیتے ہیں اور اس کی بدنامی حکومت اور حکومتی اہلکاروں کے نام لکھ دی جاتی ہے۔ یہ ٹھگ بیوروکریسی کو بھی اسی طرح ٹھگتے ہیں۔اس لئے حکومت اور بیوروکریسی دونوں کو اس مصیبت اور بدنامی سے بچنے کیلئے عملی اقدمات کرنے کی ضرورت ہے۔
