دورہ افغانستان۔۔۔۔مگر؟

خیبرپختونخوا حکومت نے افغانستان کے دورے کیلئے ٹی او آرز تیار کر لئے ہیں اور اس حوالے سے دو وفود کو افغانستان بھیج کر باہمی تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے خاتمے کے لئے گفتگو کی جائے گی اس ضمن میں مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا نے افغان حکومت سے بات چیت کے لئے وفد افغانستان بھیجنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹی او آرز کے مطابق افغان طالبان سے بات چیت کے لئے دو وفد بھیجے جائیں گے پہلا وفد مذاکرات کے لئے ماحول کو سازگار بنائے گا جبکہ دوسرا وفد کئی سٹیک ہولڈرز پرمشتمل ہوگا’ اس حوالے سے مشیر اطلاعات کو رابطہ کاری کے لئے فوکل پرسن نامزد کیا گیا ہے ‘ ٹی او آرز کے مطابق وفود بھیجنے کا مقصد کراس بارڈر ٹرائبل ڈپلومیسی مضبوط کرنے کے علاوہ اقتصادی اور معاشرتی تعلقات کو فروغ دینا ہے اصولی طور پر دیکھا جائے تو جن مقاصد کیلئے وفود بھیجے جا رہے ہیں ان کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور اس مقصد کیلئے گزشتہ رز وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی صدارت میں سیاسی رہنمائوں اور مذہبی و دینی اکابرین کے ایک اجلاس میں کئے گئے فیصلوں کے مطابق افغانستان کی قیادت سے مذاکرات کیلئے وفد بھیجنے پر اتفاق کا اظہار کیا گیا تھا اور ٹی او آرز کی تیاری اسی سلسلے کی کڑی ہے تاہم دوسری جانب دفتر خارجہ نے مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا کے افغانستان سے متعلق بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملکی خارجہ امور وفاق کے دائرہ کار میں آتے ہیں ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ اپنی تیاری کرکے وفاق سے رابطہ کریں گے ‘ ترجمان دفتر خارجہ کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے افغانستان کے ساتھ مذاکرات کیلئے وفود تشکیل دینے اور ان کیلئے ٹی او آرز کوحتمی شکل دینے کے بعد تاحال وفاق کے ساتھ کوئی نہیں کیا دفتر خارجہ کی جانب سے اس معاملے پر سوال اٹھائے جانے کے بعد وفود کی سطح پر افغانستان جا کر گفت و شنید کی اب کیا حیثیت رہ جاتی ہے اس پر صوبائی حکومت کے متعلقہ حلقوں کو ضرور سوچنا چاہئے بلکہ ہمیں تو یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اگر وفود ترتیب دینے اور ٹی او آرز کو ترتیب دینے جبکہ سیاسی اور مذہبی ودینی اکابرین کے اجلاس سے بھی پہلے وفاق کو اعتماد میں لیا جاتا تو زیادہ بہتر ہو تا اب اگر وفاقی سطح پر دفتر خارجہ وفود کی سطح پر افغانستان کے ساتھ روابط کی اجازت نہیں دیتی ہے توکیا افغان حکومت انہیں اہمیت دینے پرتیار ہوگی؟ ان سوالات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا لازمی ہے ۔

مزید پڑھیں:  بجلی قیمتیں اور حکومتی دعوے