آئی ایم ایف وفد ، ملاقاتیں اور توقعات

آئی ایم ایف ( بین الاقوامی مالیاتی فنڈ )کے ادارے سے وابستہ ہمارے ایک دوست کل ملے تو بڑی عجلت میں تھے اور بتایا کہ آئی ایم ایف کا وفد اسلام آباد آیا ہے ، حکام اور مختلف اداروں سے ان کی ملاقاتوں کے سلسلہ میں تیاری نے مصروف رکھا ہے ۔ اُنہوں نے چائے پینے کے دوران اس دورہ کے بارے مختصر باتیں کیں اور چلے گئے ۔ اب دورے کا مقصد چاہے کچھ بھی ہو مگر وفد کے ارکان چند مُلکی شعبوں میں مالیاتی گورننس ، سنٹرل بینک آپریشنز اور مُلک میں انٹی منی لانڈرنگ کے حوالوں سے جائزہ بھی لے رہے ہیں اورکئی اداروں کے حکام سے ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں ۔ اسی طرح کل ایک خبر تھی کہ نجی شعبہ کی سرمایہ کاری سے متعلق وزیر اعظم نے عالمی بینک کے ادارہ انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کے نائب صدر سے ملاقات کی ہے ۔ اس کا مقصد بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کرنا ہے تا کہ نجی شعبہ کے منصوبوں میں سازگار ماحول پیدا کیا جا سکے ۔ حکومت معیشت کی بہتری کے لیے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو زیادہ ترجیح دے رہی ہے لیکن اس حوالہ سے ایک اکثریت اپنا سرمایہ بیرون مُلک کے منصوبوں پہ لگا رہی ہے ، اسی وجہ سے صنعتی ترقی کی رفتار قدرے سست ہے اور معیشت کا زیادہ تر انحصار صنعت اور برآمدات پہ ہوتا ہے ، جس کے لیے حکومت کو اس شعبہ میں خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے
جبکہ معاشی استحکام کے لیے کئی بنیادی مسائل کا حل کرنا بھی باقی ہے ۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کی اچھی حکمرانی اور قانون کی بالادستی پر ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان اس معاملے میں ابھی تک وہ معیار حاصل نہیں کر سکا جو ترقی یافتہ یا تیزی سے ترقی پذیر ممالک میں دیکھا جاتا ہے۔ یہاں بہتری لانے کے کئی منصوبے بنائے گئے مگر سیاسی عدم استحکام اور انتظامی بد نظمی کی وجہ سے مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں ۔ آئی ایم ایف نے بھی اپنی رپورٹس میں حکومتی معاملات میں بد عنوانی ، انتظامی سطح پر مامور بیوروکریسی کی نا اہلی اور قانونی طریقہ کار میں خامیوں کو جانچتے ہوئے اصلاح کرنے کی سفارش کی ہے ۔ تعلیم کے شعبہ کی اہمیت بڑی واضح ہے اور تعلیم ہر مُلک کی ترقی میں بنیادی ستون کا درجہ رکھتی ہے ۔ اگر ہم اپنے تعلیمی نظام کو جدید تقاضوں کے مظابق نہ ڈھال سکے تو آنے والے وقت میں ہمارے بچے عالمی معیار کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے ۔ سائنس و ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل معیشت پر دسترس پانا از حد ضروری ہے کہ ہم بین الاقوامی مارکیٹ میں ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ ہو کر گلوبل سپلائی چین کا حصہ بن جائیں ۔ وفد میں شامل چند تکنیکی ماہرین نے صنعت و تجارت کے ساتھ سائنسی تحقیق و ترقی میں سرمایہ کاری کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ پیداواری صلاحیت میں اضافہ کے لیے جامعات و مقامی صنعتوں کے درمیان روابط قائم کر کے نئی ایجادات کو اپنے ہی مُلک میں فروغ حاصل ہو ۔ یہاں انجنئیرنگ یونیورسٹیوں اور انڈسٹری کا تعلق جوڑنے کو کمیٹیاں بنا دی گئیں ہیں مگر یہ محض حکومتی احکامات کی پیروی تک محدود ہیں جبکہ فریقین عملی اقدامات اُٹھانے میں ناکام ہیں ۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سرکاری افسران اور پالیسی ساز کفایت شعاری کو ترجیح دیتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ پروٹوکول اور بھاری مراعات پر خطیر رقم خرچ کی جارہی ہے ، یہاں صرف وی آئی پی کلچر کی پرورش جاری ہے ۔ ایک واقف حال نے بتایا کہ ماضی میں اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس نے مطالبہ کیا کہ مجھے بھی صوبہ کے وزیر اعلیٰ کی طرح گاڑی اور پروٹوکول فراہم کیا جائے ۔پھر واقعی اُنہوں نے وہ سب کچھ حاصل بھی کیا اور انصاف سے کہیں زیادہ پُرتعیش رہن سہن کو اہمیت دی ۔ حال ہی میں امریکی انتظامیہ نے سرکاری محکموں سے لاکھوں غیر ضروری اراکین کو فارغ کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں جو انکی کفایت شعار
پالیسی کا ثبوت ہے ۔ ہم بھی اس بادشاہی کلچر میں تبدیلی لا کر حکومتی فنڈ کو ترقیاتی منصوبوں اور زیادہ مفید عوامی مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں ۔ ہمارے وزرا، عوامی نمائندے اور انتظامیہ کے عام ضلعی افسران کسی سکول ، ہسپتا ل اور ترقیاتی منصوبے کے معائنہ کرنے اور اخبارات میں اپنی تشہیر کرنے میں وقت اور پیسہ کا ضیاع کرتے ہیں مگر کسی نے مُلک میں سول سرونٹ کے دفاتر سے لے کر بیرون مُلک پاکستانی سفارت خانوں میں جھانکنے کی کوشش نہیں کی ۔ بھاری تنخواہوں اور مراعات کے باوجود ان افسران کی کارکردگی عوام کے سامنے نہیں آتی ۔ آج جو مسائل درپیش ہیں ، اس کی وجہ یہی طبقہ ہے ، جس کا ادراک اب آئی ایم ایف کو بھی ہو چکا ہے ۔ حکومت یقینی طور پر بہتری کیلئے کوشاں ہے، مگر معاشی ترقی اور گورننس کے لیے طویل مدتی اور پائیدار حکمت عملی اپنانا ضروری ہے۔ ایسے اقدامات کرنا لازمی ہیں جو امداد ی قرضوں پر انحصار کم کر کے معیشت کو خود مختار بنائیں۔ آئی ایم ایف کے قرضے وقتی سہارا دے سکتے ہیں مگر مستقل حل تبھی ممکن ہے جب ہم اپنی برآمدات میں اضافہ کریں۔حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں وہی ممالک آگے بڑھتے ہیں جو اپنے وسائل کا بہتر اور موثر استعمال جبکہ فیصلے خود مختاری کے ساتھ کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  بلوچستان!!! شہرِ آشوب بھی شہر ِآسیب بھی