بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق زیادہ ترممالک میں تنہا رہنے والے افراد کی تعداد تاریخ میں اب سب سے زیادہ ہے ہم ساتھی کیوں نہیں بنا رہے ہیں اب نوجوان 20سال پہلے کے مقابلے میں مجرد رہنے کو ترجیح دینے لگے ہیں اور اپنا وقت آن لائن گزارنے کو کسی ساتھی کے ساتھ وقت بتانے پر ترجیح دے رہے ہیں۔ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں اب مصنوعی چیزوں اور قدرتی چیزوں یہاں تک کہ رشتوں کے درمیان امتیاز کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے ایسی ایسی مشینیں ایجاد ہوئی ہیں جن کو اگر جذبات سے عاری انسان گردانا جائے تو غلط نہ ہوگا بلکہ اب تو یہ مشین جذبات کا بھی اظہار کرنے لگی ہیں ان مصنوعات کے ایجاد کی وجہ شاید انسانوں کا انسانوں پر رشتے کا رشتوں پر اعتماد کم ہونے کی ایک بڑی نشانی ہے اور انسان اپنی فطری جبلت کو مشینوں کی نذر کرنے لگی ہے آخر ایک جیتا جاگتا انسان آخر اپنے ہم جنسوں کو چھوڑ کر بے جان چیزوں سے التفات شروع کرنے پر کیوں مجبور ہوا ان کی ترجیحات کیوں بدل گئیں اور اس کا انجام کیا ہوگا ان سوالات پر غور کیا جائے تو ہر کوئی اپنے ذہنی سطح سوچ اور انداز فکر کے مطابق جواب پائے گا میں اس موضوع پر بہت زیادہ غور نہیں کرتی لیکن کبھی کبھار ایسی چیزیں سامنے آجاتی ہیں کہ انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے اس کی وجہ کیا ہے اس طرح کی مصنوعی چیزیں تیار کرنے والوں کو بھی اس بات کا بخوبی ادراک ہو گیا ہے کہ اب اشرف المخلوقات میں محبت اور شفقت کے جذبات دم توڑ رہے ہیں چونکہ قدرت نے ان جذبات کو انسان کے ساتھ پیدا کیا ہے ایسے میں ان جذبات کو نہ تو دبایا جا سکتا ہے اور ان کا خاتمہ تو ممکن ہی نہیں ایسے میں متبادل کی تلاش لازمی اور فطری امر ہے یورپ میں بہت عرصے سے جبکہ ہمارے ہاں بھی بعض خاندانوں بلکہ ایک خاص قسم کی سوچ رکھنے والے افراد میں جانور پالنے کا شوق بچے پالنے کا متبادل بنتا جا رہا ہے یورپ میں اس کی واضح وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ وہاں پر انسانوں کے باہمی تعلقات دکھاوے کی حد تک تو بہت خوشگوار ضرور نظر آئیں گے لیکن بادی النظر میں ایسا شاید نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا انسانوں کے معاشرے میں نہیں بلکہ مشینوں کے معاشرے ہی میں ممکن ہو سکتا ہے کہ انسان ایک دوسرے کے معاملات سے پوری طرح لا تعلق رہ سکیں اور ایک مشینی زندگی طرز زندگی اختیار کریں انسان معاشرے میں رہتے ہوں ان میں جہاں اختلافات جھگڑے اور فساد ات کے امکانات قدم قدم پر موجود ہوتے ہیں اور ایسا ہونا کسی اچھنبے کی بات اس لیے نہیں کہ قدرت نے یہ خاصیت انسانوں میں پوری طرح رکھی ہے کہ وہ تعمیر کے ساتھ تخریب کا بھی حامل اور قابل ہے جبکہ صرف ایسا نہیں بلکہ انسان اس کے ساتھ ساتھ اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے ایک دوسرے سے انس و محبت اور اچھے معاشرے کی تشکیل اور اچھے انداز میں زندگی گزارنے کے بھی قابل ہے مختصراً خیر اور شر انسان کی سرشت میں شامل ہے ایک حد تک شر کو دفع کرنے اور خیر کو پھیلانے کا جذبہ انسان ہی میں پایا جاتا ہے اور یہ انسان کی فطرت ہے اگر اس فطرت سے احتراز برتا جائے تو اس کا متبادل اس طرح کے معاشرتی تبدیلی اور انسانوں کی بجائے مشینوں کی ضرورت پڑ جانے کی صورت ہی میں سامنے آئے گا یورپ میں مشترکہ خاندان کا اب رواج نہیں یہاں تک کہ بچے بھی اڑان بھرنے کے قابل ہونے پر ماں باپ کو چھوڑ دیتے ہیں ہمارا معاشرہ اب بھی ایک روایتی معاشرہ ہے جہاں بچے جتنے بڑے بھی ہو جائیں ماں باپ کی نظروں میں بچے ہی رہتے ہیں اور ان کا بچوں کی طرح خیال بھی رکھنے کا رواج ہے جبکہ بچے جتنے بھی بڑے اور سمجھدار ہو جائیں کتنا بڑا عہدہ بھی ان کو مل جائے اخلاقی اقدار بلکہ دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق ان کو ماں باپ کے سامنے اف تک نہیں کہنا ہوتا ہے اگرچہ اب حالات ہمارے معاشرے کے بھی کچھ اچھے نہیں بلکہ اب بچے والدین کو بوجھ سمجھنے لگ گئے ہیں اور ان کا رویہ والدین کے ساتھ اچھا نہیں لیکن یہ پورے معاشرے کی تصویر نہیں بلکہ پورے معاشرے کی تصویر یہ ہے کہ ماں باپ کی خدمت اور ان کی دعائیں لینا اولاد کی پہلی ترجیح ہے بچے ہر قیمت پر والدین کی اطاعت چاہتے ہیں اس میں کوتاہی فطری امر ہے جو قابل ذکر نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دھیرے دھیرے ہمارے معاشرے میں بھی حالات بالاخر اس نہج پر بہرحال پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ جس طرح ہم ہر معاملے میں یورپ کے اندھی تقلید کر تے ائے ہیں ہمارے معاشرے میں بھی والدین کی خدمت اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بھی یہ وطیرہ اختیار کیا جائے قطع نظر اس کے کہ بزرگوں کا ہمارے معاشرے میں مقام گھٹنے والا ہے نوجوانوں اور کم عمر افراد میں باہمی دوریاں اور ہر کسی کا اپنے خول میں بند ہونے کا عام عمل بھی کچھ کم رفتار سے جاری نہیں ایسا ہوا تو بہت جلد یورپ کی طرح پاکستان میں بھی جذباتی مشینی انسان انسان کا متبادل بن جائیں گی ممکن ہے چوری چھپے یہ سلسلہ شروع ہی ہو چکا ہو جس کے معاشرے میں عیب ہونے کے باعث چرچا نہیں ہوتا جب یہ پردہ ہٹ جائے گا تو پھر حقیقت کھل کر سامنے آئے گی کہ ہمارے معاشرے میں بھی جذباتی مشینوں نے انسانوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے اور یہ ایک طبقے کی ضرورت بن چکی ہیں دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں بھی مشینوں کی حکومت کچھ کم نہیں کپڑے دھونے سے لے کر برتن دھونے تک اور مصنوعی طور پر کمرے کو ٹھنڈا کرنے جیسی مشینیں تو پہلے ہی رواج پا چکی ہیں ٹھیک ہے یہ انسانی ضرورت ہے اور انسان کو ان کے استعمال سے راحت ملتی ہے مشینوں کی حکومت اسی طرح صحیح قائم ہو سکتی ہے مگر جب انسان ہر چیز میں مشین کا عادی ہو جائے توظاہر ہے فطری طور پر مشینیں بھی ان کے اعصاب اور جذبات کو بھی دلکش لگنے لگیں گی ہمارے معمولات اور زندگیاں پہلے ہی مشینی ہو چکی ہیں ہم نے اپنے خیالات پر بھی مشینوں کو طاری کر دیا ہے ۔بعید نہیں کہ جانے انجانے اپنے جذبات بھی جلد انہی کے ہاتھوں میں دے دیں۔
