پاکستان کی بحرانی مثلث

ڈونلڈٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد نریندر مودی ان سے ملاقات کے لئے جانے والے چوتھے عالمی راہنما ہیں ۔نریندرمودی نے اس دورے میں امریکہ کے ساتھ کئی معاہدات اور دفاعی سودے کئے بلکہ دونوں کے درمیان ملاقات کا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری ہوا اور یہ اعلامیہ پاکستان کے لئے مستقبل کے خطرات کی گھنٹی ہے۔اعلامیے میں ممبئی اور پٹھانکوٹ حملوں کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان پر زور دیا گیا کہ وہ اپنی سرزمین دہشت گردسرگرمیوں کے لئے استعمال نہ ہونے دے۔ اس کے ساتھ ہی امریکی جیل میں مقید ممبئی حملوں میں مبینہ طور پر ملوث ایک پاکستانی نژاد باشندے کو بھارت کے حوالے کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے روایتی انداز میں اس اعلامیہ کو گمراہ کن ،یک طرفہ اور سفارتی آداب کے منافی قرار دے کر مسترد کر دیا ۔اس استرداد سے پاکستان کو درپیش چیلنج کم ہو سکتے ہیں نہ امریکہ اور بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر کوئی اثر پڑ سکتا ہے ۔نریندر مودی کے ایک اور اہم ملاقات امریکی نیشنل اینٹیلیجنس ڈائریکٹر تلسی گبارڈ کے ساتھ ہوئی ۔تلسی گبارڈ امریکہ کی اٹھارہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نگرانی کریں گی اور یہ عہدہ نائن الیون کے بعد تخلیق کیا گیا ہے۔43سالہ تلسی گبارڈ اور بھارت کا تعلق نظریاتی رنگ سے بھرپور ہے ۔تلسی گبارڈ کا بھارت سے کوئی خاص تعلق نہیں مگر ان کے والد نے امریکہ میں ہندومذہب قبول کیا تھا ۔تلسی گبارڈ ہندو توا نظریات سے متاثر ہیں اور انہیں” کرما یوگی ”کہا جاتا ہے۔تلسی گبارڈ نے اپنے عہدے کا حلف بھگوت گیتا پر اُٹھا کر اپنے نظریات کا واضح طور پر اظہار کیا تھا ۔وہ 2014میں مودی کی دعوت پرپہلی بار بھارت کا پندرہ دن کا دورہ کرچکی ہیں۔2019میں بھی وہ بھارت کی ایونٹ مہمان خصوصی بنیں ۔پاکستان کے بارے میں ان کے خیالات یہ رہے ہیں کہ انہوں نے اُسامہ بن لادن کو پاکستان میں پناہ دینے کا الزام عائد کیا اور حافظ سعید کی رہائی پر تنقید کی ۔اس لئے اب کی بار نریندر مودی کے لئے امریکی انتظامیہ میں چہار سو ہرا ہی ہرا ہے ۔کچھ بھارت نژاد اور کچھ بھارت دوست افراد اہم عہدوں پر براجمان ہو چکے ہیں ۔پاکستان اور مسلم دنیا کے حکمرانوں کے بارے میں ان کے خیالات تلخ اور تُند رہے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے بارے میں امریکہ کا تعلق دومختلف انداز لئے ہوئے ہے ۔پاکستان امریکہ کے لئے ایڈہاک ازم پر مبنی ایک عارضی جنگی پروجیکٹ ہے اور بھارت ایک طویل المیعاد مستقل دوستانہ اور دفاعی پروجیکٹ ۔جب بھی امریکہ کو خطے میں دہشت گردی کا ڈھول پیٹنے کی ضرورت ہوگی وہ پاکستانی مقتدرہ کی کلائی مروڑ کر اسے جنگ میں دھکیلتا ہے اور بھارت کو وہ ہر قسم کی جنگ سے بچا کر ترقی اور امن کے راستوں پر اپنا شراکت دار بنائے رکھنا چاہتا ہے ۔امریکہ کے اسلام آباد میں سابق سفیر رچرڈ اولسن نے ستمبر 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد اسرائیل کے ایک اخبار میں لکھے گئے مضمون میں اس تعلق کی بہت دلچسپ منظر کشی کی تھی ۔ان کا کہنا تھا پاکستان نے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ امریکہ پاکستان کو بھی بھارت کی طرح جنگوں کے زاویے سے دیکھنے کی بجائے مستقل نوعیت کے تعلقات قائم کرے مگر امریکہ ایسا کیوں کرے ؟پاکستان کے پاس امریکہ کودینے کے لئے ہے ہی کیا؟یہی کافی ہے کہ امریکہ پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔پاکستان کی ایلیٹ کلاس کی مجبوری امریکہ ہے ۔ان کا تعلیم تفریح اور کاروبار کا مرکز ہی امریکہ ہے ۔وہ اس کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے ۔رچرڈ اولسن کا یہ تجزیہ ہوائی نہیں تھا بلکہ اسلام آبا د میں سفارتی ذمہ داریوں کے دوران انہوں نے قریب سے مشاہدہ کیا تھا کہ پاکستان کی فیصلہ ساز اشرافیہ امریکہ کے بغیر سانس لینے کا تصور نہیں کر سکتی اور خود امریکہ بھی پاکستانی اشرافیہ کی منی لانڈرنگ کے ذریعے منتقل کی جانے والی دولت کو اپنے ہاں بصد خوشی قبول کرتا ہے اور پھر اس دولت کو تحفظ دیتا ہے ۔یہ پاکستان کی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونے کا ہی ایک طریقہ ہوتا ہے۔اس کے برعکس امریکہ بھارت کو ہر صورت میں چین کے مدمقابل تہذیب کے طور پر کھڑا کر نا چاہتا ہے وہ چاہتا ہے کہ ایشیا سے اگر اسے کنفیوشس تہذیب کے مقابلے سے متعلق اپنے تزویراتی پروجیکٹ چھوڑ کر رخصت ہونا بھی پڑے تو وہ اس خلاء کو ہندو تہذیب اور شناخت کے حامل بھارت کے ذریعے پر کرے ۔ اسی لئے اب امریکہ کو بھارت کی سیکولر شناخت کی ہندو راشٹریہ بننے پر بھی کوئی اعتراض نہیں رہا ۔یہاں تک کہ امریکہ نے اسرائیل کے بعد اگر کسی ملک کو اپنے سٹریٹجک پارٹنر کا حقدار جانا تو ملک صرف بھارت ہے۔پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ اس کی ایلیٹ کلاس جسے رچرڈ اولسن نے دوسرے لفظوں میں امریکہ کی” پیراسائٹ ”قراردیا ہے امریکہ کے دبائو کا سامنا نہیں کرسکتی ۔
ماضی میں جب بھی پاکستان کی مقتدرہ اور امریکہ میں ٹھن جاتی تھی تو امریکہ سول حکمرانوں کے ساتھ راہ ورسم پیدا کرتا تھا ۔میموگیٹ اور ڈان لیکس اسی حکمت عملی کا مظہر تھے ۔اس بار سارے سٹریٹجک اثاثے اقتدار کی ٹوکری میں ہیں اور رائے عامہ اور ان کی پسندیدہ قیادت دوسری انتہا پر کھڑے ہیں ۔ایسے میں امریکہ کو پاکستان کی کلائی مروڑنے میں زیادہ آسانی ہو سکتی ہے۔پاکستانی مقتدرہ کے لئے ٹرمپ آؤٹ آف سلیبس کردار کے طور پر سامنے آئے ہیں ۔موجودہ سسٹم اس مغالطہ کا شکار رہا کہ جوبائیڈن انتظامیہ کے کردار اب تاحیات امریکہ پر براجمان رہیں گے ۔اسی لئے انہوںنے ٹرمپ کی سیاست اور انداز کو مختلف اوقات میں ہدف تنقید بنایا ۔بائیڈ ن انتظامیہ اور امریکی ڈیپ سٹیٹ کے ارادے شاید یہی ہوے مگر جمہوریتوں میں عوامی رائے کو راہ دئیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔پاکستان کا موجودہ سیاسی بحران جس قدر گہرا ہوتا چلا جائے گا امریکہ کے لئے پاکستان کی کلائی مروڑنا اور اپنے فیصلے منوانا آسان ہوتا چلا جائے گا ۔ اس بحرانی کیفیت میں پاکستان ایک دن چین کے دروازے پر تو دوسرے دن امریکہ کی دہلیز پر پنڈولم کی طرح جھولتا نظر آئے گا ۔جیسا کہ محسن نقوی نے دورہ امریکہ میں کیا تھا ۔وہ ٹرمپ انتظامیہ کے پہلو سے اُٹھے تو چین مخالف تقریب میں جا پہنچے ۔ پاکستان کا موجودہ سسٹم ایک طرف چین کو سی پیک سے ہاتھ کھینچنے پر مجبور کر چکا ہے تو دوسری طرف امریکہ کے عزائم اور تیور خطرناک اور زہرناک ہوتے جارہے ہیں جبکہ اس بحرانی مثلث کا تیسرا زاویہ اپنی رائے عامہ ہے جو واشنگٹن سے اسلام آباداور سڈنی سے لندن تک اس بار اپنی مقتدرہ سے ایک مستقل فاصلہ بنائے بیٹھی ہے ۔یہ وہ مقام ہے جو پاکستان کے لئے امریکہ کے اہداف کی تکمیل کو آسان بنا رہا ہے۔

مزید پڑھیں:  بیرون ملک جائیدادیں خریدنے کا رجحان