وزارت خارجہ پاکستان نے بالاخر30لاکھ کے لگ بھگ گئے افغان پناہ گزینوں کو برسوں بعد بڑے پیمانے پر تیزی سے وطن واپس بھیجنے کی تیاری کی باضابطہ طور پر تصدیق کر دی ہے پہلے مرحلے کا آغاز خاموشی کے ساتھ جڑواں شہر راولپنڈی اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے ہو چکا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کی طرف سے رجسٹریشن کارڈ یا پروف رکھنے والے پناہ گزینوں کے اجازت ناموں کے ختم ہونے میں بھی چار ساڑھے چار ماہ رہ گئے ہیں جن کی تعداد 14 لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں سردمہری اپنی جگہ پاکستان نے ایک ایسے موقع پر یہ اقدام اٹھانے کی تیاری کی ہے اور پہلے کے مقابلے میں اس مرتبہ سنجیدگی کا عنصربھی کافی زیادہ ہے جب طالبان کے افغانستان میں دوسری مرتبہ اقتدار کے تین سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا لیکن اس دوران بجائے اس کے کہ دونوں ممالک کے درمیان کم از کم پہلے سے چلے آنے والے تعلقات ہی اگر بحال رہتے تو پاکستان شاید مزید محولہ فیصلے کا انتظار کرتا لیکن ایسا لگتا ہے کہ طالبان کسی قسم کے تعاون یہاں تک کہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کہ معاہدے ہی کی پابندی کے لئے بار بار توجہ دلانے کے باوجود تیار نہیں جو ان کی شرعی دینی اخلاقی اور سفارتی ذمہ داری بنتی ہے الٹا اس سے احتراز ہی بڑھتا گیا جس کے جواب میں پاکستان اپنے ملک میں مقیم افغان پناہ گزینوں کے حوالے سے حتمی اور فیصلہ کن اقدام کی تیاری میں ہے جس کی باضابطہ طور پر نہ صرف پاکستانی وزارت خارجہ نے تصدیق کر دی ہے بلکہ افغان سفارت خانے کی جانب سے بھی اس کی تصدیق کی گئی ہے اس وقت افغانستان میں خود افغان قیادت کے درمیان اختلافات کی نوعیت اس طرح بد ظن ہو گئی ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ افغان قیادت قندھار اور کابل کے درمیان تقسیم ہو گئی ہے اور طالبان کی صفوں میں خلیج گہری ہوتی جا رہی ہے جس کا ثبوت اس عمل سے ملتا ہے کہ کئی اہم افراد ملک سے باہر جانے کے بعد واپس نہیں لوٹے یہاں تک کہ نائب وزیراعظم بھی کئی ہفتوں سے افغانستان سے باہر ہیں دوسری جانب طالبان کی سخت گیر پالیسیوں کی وجہ سے بھی بعض اعتدال پسند رہنما ناراض ہیں ممکنہ طور پرطالبان کی صفوں میں پاکستان کے ساتھ کا اب اور قندہار کے تعلقات پر بھی درون خانہ تحفظات موجود ہوں ایسے میں پاکستان کی جانب سے جس اقدام کی تیاری عملی طور پر کی جا رہی ہے اگر مسئلہ حل نہ ہوا تو افغانستان ایک مشکل دور میں داخل ہو سکتا ہے افغان پاکستان میں موجود افغان باشندوں اور پناہ گزینوں کو اس طرح کی مشکلات کا بخوبی ادراک ہے اور وہ کسی قیمت پر بھی افغانستان واپسی کے لیے مادہ نہیں صرف یہی نہیں بلکہ افغان پناہ گزینوں کے پاکستان کے مختلف شہروں میں وسیع کاروبار کو سمیٹنا بھی کوئی ایسا کام نہیں بہرحال اس سے قطع نظر اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے پالیسی ساز اب با امر مجبوری اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی بدامنی اور اس طرح کے دیگر واقعات میں کمی لانے کے لیے افغان پناہ گزینوں کی مکمل واپسی ناگزیر ہو گئی ہے اگر اس ضمن میں حکومت پاکستان کو کوئی درمیانی راستہ اختیار کرنا پڑا تو بھی اس کا طریقہ کار اب پہلے جیسا نہیں رہے گا بلکہ افغان پناہ گزینوں کو مہاجرین کی طرح کیمپوں تک محدود کرنے کا آپشن موجود ہے جبکہ افغان پناہ گزینوں کے کاروبار اور املاک کے حوالے سے بھی اب سنجیدگی کے ساتھ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہوگی جس کے بغیر ان کی واپسی یا پھر ان کو محدود کرنے کے ممکنہ امکان سود مند ثابت نہیں ہو سکیں گے۔افغان عبوری حکومت کے عہدیداروں کے روئیے اور انداز فکر کے ساتھ ساتھ پاکستان میں برسوں سے مقیم افغانیوں کی اکثریت کے انداز فکر کا جائزہ لیا جائے تو بدقسمتی سے وہ اپنے میزبان ملک کا ممنون ہونے کے لیے بھی تیار نہیں بلکہ الٹا اسے وہ اپنا حق گردانتے ہیں بلکہ ان کے دعوے اس سے بھی بڑھ کرہوتے ہیں اس صورتحال میں اگرچہ پاکستان نے اسلامی بھائی چارے اور دینی اخوت کے جذبے کے تحت چار دہائیوں سے زائد عرصے تک افغان پناہ گزینوں کی جس طرح میزبانی کی بلکہ ان کو اپنے شہریوں کے برابر کا درجہ دیا وہ ساری محنت رائیگان جاتی محسوس ہوتی ہے بہرحال یہ اب اس امر کے جائزے کا موقع نہیں کہ ماضی میں کیا کیا غلطیاں ہوئیں اور پاکستان کو ان غلطیوں کا خمیازہ کہاں کہاں اور کیسے کیسے بھگتنا پڑا یہ الگ امر ہے افغان پناہ گزینوں کے انخلاء اب ناگزیر ہو چکا ہے اس منصوبے پر عمل درآمد کے بعد کے حالات بھی اگرچہ سازگار ہونے کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی لیکن بہرحال اب اس منصوبے پر عمل درآمد کے علاوہ کوئی چارہ کار باقی دکھائی نہیں دیتا۔صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ افغان عبوری حکومت افغانستان میں ہنگامی طور پر لاکھوں افراد کو بسانے کا انتظام یقینی بنائے۔
