”کہیں ایسا تو نہیں”

گزشتہ روز ایک ماہر تعلیم شیخ نعیم صاحب نے ڈنر پر بلایا،کافی تعداد میں وہاں ٹیچرز بھی موجود تھے۔جہاں وطن عزیز کے موجودہ تعلیمی نظام بھی زیر بحث رہا اور زور شور سے تبادلہ خیالات بھی ہوا۔کسی نے کہا قصور وار اساتذہ ہیں تو کسی نے کہا طلبا اور ان کے والدین،چلو جو بھی ہے ہم سب کو آپنا آپنا قصور تسلیم کرنا ہوگا۔کسی نے کہا کہ ایک اچھا استاد صرف پڑھاتا نہیں بلکہ دلوں کو جیتتا ہے۔اگر بچے سبق یاد نہیں کرتے یا توجہ نہیں دیتے تو کیا یہ صرف ان کی غلطی ہے؟ ہر گز نہیں بلکہ کامیاب تدریس کے لیے ضروری ہے کہ استاد آپنے انداز،رویے اور طریقہ کار پر بھی نظر ڈالے،بسا اوقات کچھ اساتذہ اس طرح کے الفاظ سے پریشانی کا اظہار کرتے ہیں اور کلاس کے ہر تیسرے چوتھے بچے کے بارے میں ان کے یہی الفاظ ہوتے ہیں کہ وہ پڑھتا نہیں،یاد نہیں کرتا،وقت پر نہیں آتا،بات نہیں مانتا،بد تمیز ہے وغیرہ وغیرہ تو میں کیا کروں؟ ہمارے وقتوں میں ٹیچرز صاحبان طلبا کی اصلاح کے لئے ڈانٹ ڈپٹ کرلیا کرتے تھے۔زیادہ سے زیادہ مرغا بنا دیتے تھے اور ہم ڈر سے گھر بتاتے بھی نہیں تھے کہ استاد نے سزا دی ہے کہ گھر والے الٹا ہمیں کوسیں گے کہ آپ کو سبق نہیں آتا ہوگا۔وقت جیسے جیسے گزرتا جارہا ہے اخلاقی قدروں کے اندر گراوٹ پیدا ہوتی جارہی ہے۔ماضی کا جو دور تھا اس وقت گھر کے لوگ بھی آپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیتے تھے اور ان کو اچھا بنانے کی کوشش کرتے تھے تاکہ مستقبل میں وہ ایک اچھا شہری بنے اور کامیاب ہوں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئی نسل کے اندر بے راہ روی پیدا ہوتی جارہی ہے۔بے شک تعلیم کا پھیلائو تو ہوا ہے لیکن اخلاقی اقدار کے اندر گراوٹ آتی جارہی ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔ پہلے طلبا اساتذہ کی عزت وتکریم میں اونچی آواز میں بات تک نہیں کرتے تھے ۔اساتذہ بھی صرف درسی تعلیم ہی نہیں بلکہ اخلاقی تربیت بھی کرتے تھے۔بچوں کو اعتماد فراہم کرنا انہیں ماڈرن تعلیم دلوانا اور زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی تربیت دینا الگ بات ہے لیکن اس ماڈرن ازم کے چکر میں ہماری نئی نسل
اساتذہ کا تقدس بھول گئی ہے۔لہٰذا ایسی صورتحال میں استاد محترم کو بھی آپنے اندر جھانکنے کی کوشش کرنی چاہیے کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ خود بھی وقت پر نہیں اتے،وہ سب بچوں کو ایک ہی انداز میں پڑھاتے ہیں اور بچوں کی نفسیات سے واقف ہی نہیں؟ یا طلبا کو سمجھانے میں مشکل طریقہ اپناتے ہیں یا اپنے آپ کو کامل سمجھ کر بچوں کی تعلیم کے بارے میں کسی سے مشورہ نہیں کرتے یا ہمیشہ کلاس میں بچوں کے ساتھ ہنسی مذاق میں رہتے ہیں اور کلاس میں ایک کھیل کا ماحول ہے۔جب میں طالب علم تھا اس وقت کے
اساتذہ کا طلبا کے ساتھ ایک غیر معمولی ربط ہوا کرتا تھا اس کا اثر ہم جیسے طالب علموں پر پڑا۔ایک تو آج کل کا ربط ہے جو ٹیچرز اور سٹوڈنٹس ڈانس موسیقی کے پروگرامز میں بھی ایک ساتھ اور سموکنگ وغیرہ بھی ایک ساتھ تو کم از کم میں ان واقعات کا ذمہ دار کسی ایک فرد یا تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو قرار نہیں دیتا بلکہ جو کچھ آج کل ہورہا ہے اس کا ذمہ دار دور حاضر کے فتنہ موبائل اور والدین کو قرار دیتا ہوں ،آج کل تعلیمی ادارے تو تجارتی منڈیاں بن چکی ہیں ان کو صرف پیسہ چاہئے ان کواس سے کوئی سروکار نہیں کہ بچے بچیاں کون سا لباس پہن کر آتے ہیں،ان کی کلاسز کتنی ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔کہا جاتا ہے کہ ایک اچھا اور مخلص استاد اپنے طلبا کی زندگی میں تعلیمی انقلاب لاتا ہے وہ اپنے طالب علموں کو نہ صرف باکردار ،بااخلاق اور ایک اچھا شہری بناتا ہے بلکہ اس کے اندر علمی ذوق پیدا کرکے اعلی اقدار کا حامل اور کامیاب شخص بنانے میں آپنی بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے اسی میں سے ایک نام ہے شیخ صاحب کا۔اس نے پوری زندگی تدریسی کام میں لگایا اور ایک اچھے ٹیچر کی حیثیت سے آپنے طلبا کو بھی اسی معیار پر اتارنے کی کوشش کرتے رہے۔بقول شیخ صاحب ضروری نہیں کہ ہمیشہ مسائل کی وجہ طلبا ہوں بلکہ ان کا سبب استاد بھی ہوسکتا ہے۔ایک مخلص استاد کی علامت یہی ہوتی ہے کہ وہ آپنی ذات میں کوئی
کمزوری پائے یا اسے ادارے کی طرف سے بتایا جائے تو وہ اسے تسلیم کرکے اس کو دور کرنے کی کوشش کرے۔تعلیم کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے اگر ہم اپنے تعلیمی نظام میں موجود ان خامیوں کو دور کرنے میں سنجیدہ نہ ہوئے تو مستقبل میں اس کے نتائج مزید خطرناک ہوسکتے ہیں۔ آج کل طلبا و اساتذہ کے درمیان ربط کی کمی ہوگئی ہے جس سے نقصان ہورہا ہے،جس طرح آپریشن کے لیے ڈاکٹر،عمارت بنانے کے لئے انجینئر ہونا ضروری ہے،اسی طرح ہمارے مستقبل کے معماروں کو پڑھانے کے لئے ایک استاد کا آپنے مضمون کے ساتھ ساتھ تدریس کے شعبے میں ماہر ہونا بھی لازمی ہے۔طالب علمی کا زمانہ وہ وقت ہوتا ہے جب طالب علم آپنے مقصد کو اور آپنے خواب کو حقیقت میں بدل سکتا ہے۔تمام اساتذہ کو چاہئے کہ وہ مخلص ہو اور اپنی تعلیم سے طلبا کو زیادہ سے زیادہ فیض پہنچائیں اور طلبا کے اندر اخلاقیات کی تعلیم اور اس رجحان کو عام کریں۔معلم کے پیشے کا یہ بھی تقاضا ہے کہ وہ بچوں کی نشوونما اور ان کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل سے بخوبی آگاہ ہو۔وہ بچے کی صلاحیتوں اور اس کے تقاضوں سے بھی واقف ہو تاکہ درس وتدریس کے عمل میں آپنی ان معلومات سے فائدہ حاصل کرسکے۔غرض یہ کہ ایسے اساتذہ جو اپنی تدریس کی باقاعدہ منصوبہ بندی کرتے ہیں،ان کی تدریس لازماً موثر ثابت ہوتی ہے۔ آج کل جب ہم بچوں کے سکول میں حفاظت کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے ذہنی صحت کی حفاظت اس کے علاہ جیسا ماحول آج کل ہے اس میں بچوں کی حفاظت بڑھتے ہوئے نشے اور انٹرنیٹ،موبائل کے غلط استعمال سے بھی کرنا انتہائی ضروری ہے۔

مزید پڑھیں:  زرعی زمینوں کو لاحق خطرات