ایک وقت تھا کہ موبائل فون کی دنیا میں صرف نوکیا کا طوطی بولتا تھا اور اسے اس دنیا کا بے تاج بادشاہ سمجھا جاتا تھا، حالات بدلے اور سام سنگ اور ایپل کی آمد کی وجہ سے نوکیا کے لئے قدم جمانا مشکل ہوتا گیا اور پھر وہ دن آیا کہ مائیکرو سافٹ نے نوکیا کو خرید لیا، اس موقع پر نوکیا کے منتظم اعلیٰ نے اپنی بات یہ کہہ کر ختم کی کہ ہم نے کچھ غلط نہیں کیا، لیکن ہم ہار گئے، اس کی اس بات پر وہ خود اور نوکیا کی پوری انتظامیہ رو پڑی، یہ بات بالکل درست تھی کہ نوکیا نے کچھ غلط نہیں کیا تھا سوائے اس کے کہ وہ تیزی سے بدلتے حالات کا ادراک نہ کر سکی اور خود کو وقت کے تقاضوں کے مطابق بدل نہ سکی، تبدیلی کو قبول کرنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے، نوکیا بھی اپنے خول سے باہر نہ آئی اور تبدیلی سے محروم رہی، اور اس طرح اس نے ایک قیمتی موقع کھو دیا ورنہ آج بھی موبائل کی دنیا میں نوکیا کا ہی راج ہوتا، اس دوڑ میں نوکیا اتنی پیچھے رہ گئی کہ نظر بھی نہ آئی یہ مسلمہ اصول ہے کہ اگر آپ بدلتے حالات کے مطابق خود کو نہیں بدل سکتے تو آپ خود بخود مقابلے سے خارج ہو جاتے ہیں، کچھ ایسا ہی مسلمانوں کے ساتھ بھی ہوتا رہا ہے بلکہ اب بھی زور و شور سے جاری ہے، تیرہویں صدی عیسوی میں جب ہلاکو نے بغداد پر حملہ کیا تو اس وقت علماء کے مابین مناظرے ہو رہے تھے، پہلا مناظرہ یہ تھا کہ ایک وقت میں سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں، دوسرا یہ کہ کوا حلال ہے یا حرام اور تیسرا مناظرہ مسواک کے شرعی حکم کے بارے میں تھا، تاریخ گواہ ہے کہ یہ مناظرے جاری تھے اور تاتاری حملہ آور سپاہیوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، عظیم مسلم سلطنت کی عظمت اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند ڈالی اور مسلمانوں کے سروں کے مینار بنا کر اپنی فتح کا جشن منانے لگے، ہلاکو خان کی سپاہ کی تیز دھار تلواروں نے
مسلمانوں کے سر ان کی گردنوں سے اتارتے ہوئے کسی سے یہ نہیں پوچھا کہ کس گردن پر سجا کون سا سر کوے کو حرام اور کون سا حلال سمجھتا ہے، مسواک کی حرمت بچانے والے لوگ خود ہی بوٹی بوٹی ہو گئے، سوئی کی نوک پر فرشتے گننے والوں کی کھوپڑیوں کے منارے بن گئے جنہیں گننا بھی ممکن نہ تھا، کوے کے گوشت پر بحث کرنے والوں کے مردہ جسم کوے نوچ نوچ کر کھا رہے تھے، وراثت میں ملے اپنے عقیدے کی بزور بالادستی کی خاطر یہ مناظرے آج بھی جاری ہیں، اگر یہ مناظرے دین اسلام کی سر بلندی کے لئے ہوتے تو آج نتائج بھی مختلف ہوتے، ان مناظروں اور مباحثوں نے مسلمانوں کو دنیا بھر میں ذلیل و رسوا کر کے رکھ دیا اور ایسے ایسے منافرت کے بیج بوئے گئے جن کے منفی ثمرات و اثرات کے نتائج امت مسلمہ آج تک بھگت رہی ہے اور صدیوں کا سفر طے کر لینے کے بعد آج بھی ہم اسی مقام پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں، ایک حالیہ مثال کی مدد سے اپنی ناقص رائے کی وضاحت کی کوشش کرتا ہوں، آج سے قریبا سو برس پہلے اعلیٰ حضرت احمد رضا خان نے فوز زمین در ردِ حرکتِ زمین نامی کتاب لکھی اور اس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ زمین کسی قسم کی کوئی حرکت نہیں کرتی بلکہ یہ ساکن ہے، جبکہ ساری دنیا کا یہ ماننا ہے کہ زمین نہ صرف سورج کے گرد چکر لگا ہی رہی ہے بلکہ خود اپنے محور پر بھی لٹو کی طرح گھوم رہی ہے، پہلے چکر میں ایک سال اور دوسرے میں قریبا چوبیس گھنٹے لگتے ہیں، زمین اگر اپنی گردش کو تیس گھنٹوں میں پورا کرتی تو اس
کے نتیجے میں اس قدر تیز و تند ہوائیں چلتیں کہ یہاں کسی قسم کی مخلوق زندگی نہ گزار سکتی، اور اگر اسی طرح زمین اپنی گردش بیس گھنٹوں میں پورا کرتی تو زمین پر اگنے والی نباتات کی اکثریت اپنی حیاتیاتی زندگی پوری نہ کر پاتی اور اس وجہ سے زمین خشک سالی کا شکار ہو کر رہ جاتی، اسی طرح زمین کا ایک خاص جھکائو ہے اگر یہ تھوڑا سا بھی زیادہ ہوتا تو قطبین کے سرے چند ہی سالوں میں پگھل جاتے اور دنیا کے سمندر بہتی ہوئی برف سے بھر جاتے، اور اگر یہ جھکاؤ کچھ کم ہوتا تو قطب شمالی کی برف سارے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی اور زندگی کا وجود زمین کے خط استواء والے حصے میں ہی ممکن ہو سکتا تھا، حال ہی میں اعلیٰ حضرت احمد رضا خان کے پڑپوتے کا ایک بیان سامنے آیا ہے کہ جس میں انہوں نے ایک مردود حدیث کی مدد سے زمین کو ایک مرتبہ پھر ساکن ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہۖ پر وحی آرہی تھی اور آپ کا سر سیدنا علی کی گود میں تھا، پس انھوں نے عصر کی نماز نہیں پڑھی حتی کہ سورج غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا اے علی کیا تم نے نماز پڑھی ہے، علی نے عرض کیا کہ نہیں، تو آپ نے فرمایا اے اے اللہ! وہ تیری اطاعت اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا لہٰذا اس کے لیے سورج کو واپس بھیج دے، (مشکل الآثار امام طحاوی،المعجم الکبیر امام طبرانی)، آئمہ حدیث کے مطابق سیدنا علی کے لیے سورج کی واپسی والی روایت اپنی دونوں سندوں کے ساتھ
ضعیف اور مردود ہے، اس کا کوئی ثبوت نہیں اور اس سلسلے میں کوئی بھی روایت آئمہ حدیث کے نزدیک صحیح نہیں ہے، اتنا بڑا واقعہ رونما ہوا ہو اور لوگوں کو اس کا علم تک نہ ہو ممکن نہیں ہے، سورج کا غروب کے بعد مغرب سے نکلنا تو قیامت کی بڑی نشانی ہے، یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں کہ ظاہر ہو کر گزر جائے اور کسی کو علم بھی نہ ہو، چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا واقعہ تواتر کے ساتھ احادیث میں بیان ہوا ہے، پھر یہ کہ سورج جب ایک دفعہ غروب ہو گیا تو عصر کا وقت تو ختم ہو گیا، اب اگر سورج بالفرض دوبارہ واپس بھی پلٹ آئے تو نماز تو اصل وقت پر ادا نہیں ہو سکتی، یہ بات بھی قابل غور ہے کہ غروب آفتاب پر روزہ دار روزہ کھول سکتا ہے اور نماز مغرب پڑھی جا سکتی ہے، لیکن کیا دوبارہ سورج نکلنے پر وہ نماز اور روزہ باطل ہو گیا، یہ مفروضہ ناممکن ہے، بعض غزوات میں مشغولیت کی وجہ سے نماز قضا ہو گئی، ان غزوات میں آپ کے ساتھ سیدنا علی اور دیگر جلیل القدر صحابہ کرام بھی موجود تھے مگر اللہ تعالیٰ نے سورج کو لوٹا کر رات کو دن میں تبدیل نہیں کیا بلکہ نماز بعد میں ہی ادا کی گئی، اعلیٰ حضرت کے پڑپوتے کا بیان ہے کہ آپ نے اپنی انگلیوں کی مدد سے ایک ریمورٹ کنٹرول کی طرح سورج کو قابو کرکے باہر نکالا اس لئے کہ سورج حرکت کررہا تھا، اگر زمین حرکت کرتی ہوتی تو آپ زمین کو نیچے کرتے،لیکن زمین تو ساکن ہے اور سورج متحرک ہے اور وہی ڈوب رہا تھا، اسی لئے اس کو دوبارہ طلوع کیا، فراق گورکھپوری نے کیا خوب شعر کہا،
اگر بدل نہ دیا آدمی نے دنیا کو
تو جان لو کہ یہاں آدمی کی خیر نہیں
ہلاکو خان نے کوے، مسواک اور سوئی کی نوک والے مسائل کو سرے سے ہی ختم کر دیا یعنی جن علماء نے مسئلہ پیدا کیا تھا وہی نہ رہے تو پھر یہ مسئلہ کہاں رہتا، یہ حل ہمارے لئے بھی مشعل راہ ہے۔
