یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ خیبر پختونخوا میں رمضان المبارک کی آمدکے موقع پر مہنگائی پر قابو پانے کے لئے جن اقدامات کی تیاریوں کا عندیہ دیا جارہا ہے اور جو اقدامات تجویز اور فیصلے کئے جارہے ہیں اسی طرح کے روایتی اجلاسوں کا انعقاد اور مجوزہ اقدامات ہر حکومت اور انتظامیہ کی روایت رہی ہے مگر ان اقدامات پر عملدرآمد کرکے عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف دینے کی نوبت کبھی نہیں آتی امر واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ سال بلکہ ہر سال اسی طرح کے اجلاسوں کے انعقاد اور اقدامات تجویز کرنے کا کام گویا خود کار طریقہ سے انجام دیا جانے والا کام ہے جس کا مقصد عوام کو طفل تسلیاں دینے سے زیادہ کچھ نہیں جس کا اعادہ اس سال بھی کرنے کی روایت برقرار رکھی گئی ہے ہر سال کی طرح اس سال کے اقدامات کے حوالے سے پر امید ہونے کی گنجائش اس لئے نہیں کہ برسوں کا تجربہ ہے کہ نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں۔بہرحال ایک مرتبہ پھر حسب سابق ا مسال بھی صوبائی حکومت نے رمضان المبارک کے دوران عوام کو ریلیف دینے اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے کیلئے تمام ضروری اقدامات کرنیکی ہدایت کی ہے ،اس سلسلے میں گزشتہ روز منعقد ہونیوالے ایک اہم اجلاس میں تمام انتظامی افسران ،محکمہ خوراک اور محکمہ لائیو سٹاک سمیت متعلقہ محکموں کے افسران نے شرکت کی اور طے پایا کہ رمضان المبارک میں بازاروں میں مانیٹرنگ ڈیسک قائم کر کے وہاں انتظامی افسران سمیت متعلقہ محکموں کے افسران موجود ہوں گے اور عوامی شکایات پر فوری کارروائی کی جائے گی جہاں تک گزشتہ روز کے اجلاس کے فیصلوں کا تعلق ہے ان کی افادیت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیںہے اور اگر ان فیصلوں پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد ہو گیا تو عوام یقینا سکھ کا سانس لیں گے، مگر ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں ان مجوزہ اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو انتہائی معذرت اور ادب کیساتھ عرض کرنے دیجئے کہ عوام کو خوش فہمی میں مبتلا کر کے ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگانا الگ، جبکہ اس بتی کو قبضے میں لینا بالکل الگ معاملہ ہے ،اور سرکاری نرخناموں کے مندرجات کو جوتے کی نوک پر رکھنے کے اقدامات بھی نئے نہیں ہیں، اس وقت بھی صبح سویرے سبزیوں اور فروٹ کے جو نرخ نامے روزانہ کی بنیاد پر جاری کئے جاتے ہیں ان کے اندر (سرکاری طور پر)ابہام یوں رکھا جاتا ہے کہ مختلف سبزیوں اور فروٹ کے خانوں کے سامنے درجہ اول اور درجہ دوم کے الفاظ موجود ہوتے ہیں اور یہی وہ نکتہ ہے جس سے عوام کو مبینہ طور پر لوٹنے کی ابتدا کی جاتی ہے جہاں بھی جائیں ایک ہی قسم کی اشیاء فروخت ہوتی ہیں جس میں خراب اور معیاری کی آمیزش عام ہے جس سے درجہ اول و دوم کا تو فرق ہی مٹ جاتا ہے بلکہ اس سے بھی پست درجے کی اشیاء درجہ اول کے سرکاری نرخوں سے بھی بڑھا کر فروخت ہوتی ہے جن کی خریداری خریدار کی مجبوری بنادی جاتی ہے دوسرا یہ کہ دکاندار ،ریڑھی بان اور خوردہ فروش نرخ نامے لٹکا کر بھی من مانے دام وصول کرتے ہیں، مگر پرسان حال کوئی نہیں ہوتا، اسی طرح گوشت کے نرخوں میں ہر رمضان میں اضافہ کر دیا جاتا ہے اور سرکاری نرخ نامے کو قابل توجہ سمجھنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی، اس کے بعد یہی نرخ مسلسل وصول کئے جاتے ہیں ،کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سرکاری اعلانات اپنی جگہ مگر برسر زمین حقائق اپنی جگہ ،بہرحال دیکھتے ہیں کہ اب کی بار رمضان میں ان ہدایات پر کتنا عمل کیا جاتا ہے اور عوام کو واقعی ریلیف ملتا ہے یا حسب سابق عوام چیختے ہی رہیں گے اور منافع خور جیبیں بھرتے رہیں گے۔اس تلخ حقیقت کو یکسر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس وقت ملک میں حکومتی دعوئوں کے برعکس مہنگائی کا جو طوفان ہے اس نے صرف معاشرے کے نچلے طبقات کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ سفید پوش تنخواہ دار طبقہ ہو مڈل کلاس یا اپر مڈل کلاس، سب کی جان مہنگائی کی بدولت لبوں پر آئی ہوئی ہے۔ روزمرہ ضرورت کی اشیا کی جو قیمتیں گزشتہ برس کے اس ماہ میں تھیںمقابلتاً اس سے کافی زیادہ ہیں۔ سبزیوں، دالوں، گھی، چینی وغیرہ کی قیمتیں ہر روز بڑھ رہی ہیں صرف یہی نہیں بلکہ بعض اشیائے ضروریہ کی قیمت ایک ہی بازار میں مختلف ہوتی ہے۔ عام شہری تو ماچس تک کی خریداری پر ٹیکس ادا کرتا ہے مگر جوابا حکومت اس عام شہری کے حقوق کا تحفظ کیسے کرتی ہے یہ اہم سوال ہے اور یہ بھی کہ جس نظام میں ارکان اسمبلی وزیروں اور مشیروں کی تنخواہیں اور مراعات ایکا کرکے بڑھالی جاتی ہوں اس میں عوام کیلئے کوئی کیوں نہیں سوچتا؟ ارباب اختیار کو سمجھنا ہوگا کہ مہنگائی کی شرح میں ان کے دعوئوں کے برعکس مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ روزمرہ ضرورت کی عام اشیا ایک اوسط ماہانہ آمدنی اور دیہاڑی دار شخص کی قوت خرید سے باہر ہوتی جارہی ہیں فقط یہی نہیں ادویات کی قیمتوں میں پچھلے دو برسوں کے دوران جو اضافہ ہوا اس نے عام شہریوں پر علاج معالجے کے دروازے بند کردیئے ہیں۔یہ ساری صورتحال حکومت اور عوام دونوں کے لئے یکساں پریشان کن ہے مثالی اقدامات کی تو توقع ہی عبث ہے ان حالات میں کم از کم سرکار ی نرخ نامے کی ہی پابندی کرائی جا سکے تو غنیمت ہو گی۔
