مہنگائی کیوں کم نہیں ہورہی ؟

گزشتہ چار سے پانچ ماہ میں اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ ملک میں معاشی استحکام آرہا ہے ۔سٹاک ایکسچینج کی ریکارڈ ترقی دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اس ملک میں ترقی ہورہی ہے ۔ مگر عملی طورپر دیکھا جائے تو مہنگائی بدستور موجود ہے اور بڑھ بھی رہی ہے ۔ ہمارے ہاں مہنگائی کا اصل تعلق ڈالر کے ریٹ سے وابستہ ہے ڈالر روپیہ کے مقابلے جوں جوں بڑھتا جاتا ہے اس کے دوگنا تناسب سے ہمارے ملک میں مہنگائی بڑھتی ہے ۔ڈالر کی قیمت بڑھنے سے تیل کی قیمت بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے پھر ہم جو بھی چیز درآمد کرتے ہیں اس کی قیمت ڈالروں میں طے ہوتی ہے ۔ اس ملک میں مہنگائی آئی نہیں لائی گئی ہے ۔ ایک نہایت ہی طاقتور طبقے نے پیسے کمانے کے لیے ڈالر کی قیمت اصل قیمت سے کہیں زیادہ بڑھائی اور اس سے اربوں ڈالرز کمائے اور پھر اسی تناسب سے پاکستان میں ہر چیز اور خدمت کی قیمت بڑھنا شروع ہوئی ۔ ڈالر کی وجہ سے سونے کی قیمت کو بھی پر لگ گئے اور سب سے زیادہ مہنگائی گاڑیوں کی خرید و فروخت میں دیکھنے کو ملی ۔ ڈالروں کو کنٹرول کرنے والوں نے اس قوم کو ایسے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہے جس کی منزل کوئی نہیں ہے ۔ ایسے میں جو پیسہ اکھٹا کیا گیا اس میں سے بیشتر رقم بیرون ملک پہنچا دی گئی اور باقی رقم اسٹاک ایکسچینج کی نذر ہوگئی ۔ پچھلے ایک دہائی سے مسلسل رئیل سٹیٹ میں پیسے پارک کیے گئے اورپھر عقل کی آندھی حکومت پاکستان نے بائیس فیصد شرح سود دے کر لوگوں کو اپنے پیسے ایک برس میں تین گنا کرنے کا آسان حل دیا ۔ جبکہ سود کی صورت میں واپس کی گئی رقم کا بوجھ بھی حکومت اور پھر عوام پر ڈالاگیا ۔ اس برس شرح سود کافی کم ہوگئی ہے مگر مہنگائی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔ ایک برس میں دہی بڑے کی پلیٹ پچاس روپے سے دو سو پچاس روپے ہوگئی ہے ۔ یہی حال ہر شے کی ہے جو کل دس روپے کی ملتی تھی آج ساٹھ روپے کی ملتی ہے ۔ اس مہنگائی نے ہر طبقے کو متاثر کیا مگر اصل متاثر طبقہ سرکاری و پرائیویٹ ملازمین ہیں ۔ کاروباری حضرات نے تو مہنگائی کے
حساب سے دام بڑ ھا لیے مگر تنخواہ دار طبقے کی تنخواہ میں دس سے بیس فیصد ہی اضافہ ہوسکا ہے جس کی وجہ سے اس طبقے کا جینا مشکل ہوگیا ہے ۔ اس لیے کہ سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی فیسیوں میں ہوش رُبا اضافہ ہوگیا ہے ، ٹرانسپورٹ اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے ، اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے غرض ہر شے کی قیمت کم از کم چار گنا زیادہ ہوگئی ہے لیکن تنخواہ دار طبقے کی آمدن میں صرف دس فیصد اضافہ کیا گیا ہے ۔ اس لیے پاکستان میں آمدن اور خرچ کا تناسب بہت بری طرح بگڑ گیا ہے ۔ اس پر مہنگائی کی وجہ سے ملک میں بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے خاندانوں کے کمانے والے افراد پر بوجھ کئی گنا بڑھ گیا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں ہی مہنگائی آئی ہے دیگر ممالک میں بھی مہنگائی دیکھی گئی ہے لیکن ان ممالک میں مہنگائی کی بڑھنے کی شرح بہت کم ہے اور ان ممالک کی انتظامیہ کی منصوبہ بندی اور قدامات ایسے تھے جس کی وجہ سے ان کے شہریوں پر اس کے بہت کم اثرات پڑے ۔ اس ملک میں اچانک بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کئی سو گنا اضافہ کیا گیا پچھلے برس گیس کا بل جن کا دو سو روپے آتا تھا اس برس ان کو بل چھ ہزار سے زیادہ آرہا ہے ۔ یہی حال بجلی کے بلوں کا ہے ۔ اشیائے خوردونوش اور سبزیوں پھلوں کی قیمت بھی اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ کسی بھی دکاندار کو ہزار روپے دیں تو اس میں دو چیزیں بھی بمشکل ملتی ہیں ۔ اس مہنگائی کی وجہ سے ملک میں بے چینی بڑھ رہی ہے ۔ ادویات کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ کردیا گیا ہے ۔ ایک طرف بے روزگاری ، مہنگائی ، وسائل کی عدم دستیابی اور اس پر دوائیوں کی قیمتوں میں اضافہ یہ سب کچھ کسی مہذب ملک میں نہیں ہوتا ۔ اس ملک میں کرپشن جس تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اگلے چند برسوں میں اس ملک میں لوٹ سیل لگی ہوئی ہے ۔ پہلے کسی بھی کام میں سرکاری اہلکار اپنا کمیشن لیتے تھے اب صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ حکومت سے پیسے ریلیز کرنے لیے بھی تیس فیصد رشوت دینی پڑتی ہے اور جو پہلے سے کمیشن کا سلسلہ تھا وہ بھی اپنی جگہ موجود ہے ۔ کیسا ملک ہے کیسے لوگ ہیں یہ سب کچھ سرعام ہورہا ہے اور کوئی قانون کوئی عدالت کوئی صاحب اختیار اسے روکنے کی کوشش نہیں کرتا ۔یہی حالات افریقہ کے کچھ ممالک کے تھے جن میں پچھلے دہائیوں میں پھر خانہ جنگی ہوئی اور ان ممالک کے ہزاروں لوگ مارے گئے اور جو زندہ بچے تھے ان کی حالت مردوں سے بدتر تھی ۔ حالیہ برسوں میں بنگلہ دیش ، ہندوستان اور دیگر ممالک میں کرپشن میں کافی کمی دیکھنے میں آئی ہے اور عالمی طور ان کا امیج بہتر ہوا ہے اس کا اثر ان کی معیشت پر بھی پڑا ہے اور وہ ترقی کے راستے پر چل پڑے ہیں ۔ ہمارے ملک کی مشکلات اور بھی ہیں جیسے امن و آمان کی صورتحال ، سیاسی عدم استحکام ، ملک میں موجود لوگوں اور حکومتوں کا آپس میں تنازعات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ اور منصوبہ بندی کا فقدان ایسے میں مہنگائی کے جن نے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔اس ملک میں تعلیم مہنگی ہوگئی ہے اور علاج اس سے بھی مہنگا ہوگیا ہے ۔یہ سب کچھ ناقص منصوبہ بندی اور کرپشن کی عطا ہے ۔ اس ملک میں چن ُ چُن کر ایک سے ایک کرپٹ شخص کو صاحب اختیار بنایا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس ملک میں چپڑاسی سے لیکر اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز لوگ سب کا ایک کام رہ گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے حصے کی کرپشن کریں ۔ اگر ایک بھی شخص ان میں ایماندار آتا تو وہ ایسا کرنے نہیں دیتا ۔ دنیا کے سینکڑوں ممالک ایسے ہیں جن کے سیاست دان اور حکمران اور اعلیٰ افسران جب مرتے ہیں تو ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا ماسوائے نیک نامی اور ملک کی خدمت کے علاوہ اور ہمارے ہاں جو بھی مرتا ہے وہ اپنے خاندان اور بچوں کے لیے کھربوں روپے چھوڑ کرمرتا ہے یہ وہ کھربوں روپے ہیں
جو اس ملک کے غریبوں کا خون چوس چوس کر جمع کیے جاتے ہیں ۔اور پھر ان کرپٹ لوگوں کے بچے ان پیسوں سے عیاشی کرتے ہیں ، جوا کھیلتے ہیں اور ان کی وجہ سے اس ملک کی ساٹھ فیصد لوگ بھیک مانگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اس ملک کے حکمران بھیک مانگ کر اس میں بھی کرپشن کرتے ہیں ۔ وہ ملک جس پر ہزاروں اربوں کا قرضہ ہے اس کے ایک محکمے کے افسران کے لیے حالیہ دنوں میں گیارہ ارب روپوں کے نئی پرتعیش گاڑیاں خریدنے کا آرڈر دیا گیا ہے ۔ اسی مقروض ملک کے چار گورنر وں کا خرچہ پانچ ارب روپے سے زیادہ ہے جن کا عملی کام نہ ہونے کے برابر ہے ۔ یہاں کوئی سرکاری محکمہ کماتا نہیں ہے ۔ پی آئی اے ، ریلوے سالانہ ساٹھ ارب روپے سے زیادہ اضافی کھا جاتے ہیں ۔ اس ملک میں مہنگائی اس لیے کنٹرول نہیں ہورہی کہ اس میں اشرافیہ کا فائدہ ہے ۔ تیل سستا ہوگا تو سمگل شدہ تیل اس سے بھی سستا فروخت ہوگا جس سے اشرافیہ کا شدید نقصان ہوتا ہے اس لیے کہ وہ ایک لیٹر میں دو سوروپے کمارہے ہیں اگر تیل سو روپے سستا ہوگیا تو ان کا تو سو روپے کا نقصان ہوگا ۔اگر گیس سستی ہوتی ہے تو سلینڈر کون خریدے گا جو بیرون ملک مہنگے داموں خریدے گئے ہیں اس لیے عام دستیاب سستی گیس کو بھی اتنا مہنگا کردیا گیا کہ بہ امر مجبوری آپ کو سیلنڈر ہی کا گیس خریدنا پڑتا ہے ۔ پھر گیس دن میں چند گھنٹے دیکر لوگوں کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ سلینڈر خریدیں ۔ اس ملک میں کبھی کبھی حکومتیں مہنگائی کم کرنے کیلئے چند ارب روپے سبسڈی بھی دیتی ہیں اور اس سبسڈی کی مد میں جو کرپشن ہوتی ہے اس سے کون آگا ہ نہیں ہے ۔ اس ملک میں مہنگائی اسی دن ختم ہوجائے گی جب لوگ کرپشن سے ہاتھ کھینچ کر اپنے فرائض منصبی ادا کرنا شروع کردیں گے۔ جب تک ایسا نہیں کرتے ملک میں سٹاک ایکسچینج ترقی کرتا رہے گا اور لوگ مہنگائی کے ہاتھوں مرتے رہیں گے۔

مزید پڑھیں:  ٹیرف کا جھگڑا نیا عالمی مالی بحران