پاسبان عقل اور جذبات سے گریز

پاکستان تحریک انصاف کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کو نظام کا حصہ بنے رہنے اور بائیکاٹ سے گریز کا مشورہ دیا ہے، گزشتہ روز چیف جسٹس سے ملاقات کرنیوالے وفدمیں شامل ایک ذریعہ نے میڈیا کیساتھ ملاقات میں انکشاف کیا کہ چیف جسٹس نے وفد کے ارکان سے کہا کہ پی ٹی آئی والوں کو سپریم جوڈیشل کونسل کے آخری اجلاس کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے تھا، یہ اجلاس سپریم کورٹ میں عدالتی تقرریوں پر غور کیلئے طلب کر لیا گیا تھا، وفد کو بتایا گیا کہ اگر پی ٹی آئی کے ارکان اجلاس میں شریک ہوتے تو کچھ تقرریاں مختلف ہو سکتی تھیں، اس حوالے سے رابطہ کرنے پر پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے تصدیق کی کہ چیف جسٹس نے واقعی پی ٹی آئی کو نظام میں رہنے اور ججوں کی تقرری کے عمل کے بائیکاٹ سے گریز کا مشورہ دیا، جہاں تک پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں کی گزشتہ روز کے چیف جسٹس کیساتھ ملاقات میں باہمی گفتگو کے حوالے سے وضاحتوں کا تعلق ہے تو یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ پی ٹی آئی کے بانی سے لیکر موجودہ لیڈرشپ کے اندر کم کم ہی ایسے افراد موجود ہیں جو ملکی سیاسی معاملات میں افہام و تفہیم سے کام لینے کے رویے کی پذیرائی کرنے پر آمادہ ہیں، حالانکہ ملکی سیاسی حالات ہمیشہ اس بات کے متقاضی ہوتے ہیں کہ حکومت اور حزب اختلاف کے مابین گفت و شنید ،روابط اور ملاقاتوں کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنیکی کوششیں کی جائیں، لیکن اپنے ( مرکز میں) اقتدار کے دنوں سے تاحال پی ٹی آئی اپنے مخالفین کیساتھ گفت و شنید تو کجا ان کیساتھ ہاتھ ملانے تک کی روادار نہیں تھی اور وہی رویہ اب بھی جاری و ساری ہے ،جس کا پی ٹی آئی کو فائدہ کم بلکہ نہ ہونے کے برابر اور نقصان زیادہ ہو رہا ہے، اگر چیف جسٹس نے بقول پی ٹی آئی رہنماؤں کو واقعی سپریم جوڈیشل کونسل اجلاس کے بائیکاٹ سے گریز کا مشورہ دیا تو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ چیف جسٹس کا مشورہ بڑا صائب تھا اور واقعی اجلاس میں شرکت سے اعلیٰ عدلیہ میں تقرریوں کی یہ صورت نہ ہوتی، مگر اب جو پی ٹی آئی کے حلقے اس پر اعتراضات اٹھا رہے ہیں اس کی نوبت آتی نہ ہی حکومتی حلقوں کو اس حوالے سے ” واک اوور” کے مواقع ملتے، بقول شاعر عقل کے پاسبان کا دل کے پاس ہونا ضروری ہی صحیح مگر، کبھی کبھی اسے تنہا چھوڑنے سے بھی فائدہ ملتا ہے، اب بھی وقت ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنماء اپنی ضد ،انا اور سخت رویے پر نظر ثانی کریں، تاکہ ملک کو آگے بڑھانے میں ان کا کردار بھی واضح ہو۔

مزید پڑھیں:  بلوچستان!!! شہرِ آشوب بھی شہر ِآسیب بھی