پاکستان اور افغانستان کے درمیان جہاں ایک طرف افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے اور پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ کے باعث دونوں ملکوں کے درمیان تنائو کی کیفیت رہتی ہے وہاں بعض ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جس کے باعث ناقابل برداشت صورتحال پیدا ہوئی ہے حال ہی میں دہشت گردی پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے بعض واقعات میں افغان حکومت میں شامل عہدے داروں کے قریبی افراد کے ملوث ہونے ان کی لاشیں واپس وصول کرنے جیسے معاملات سے شروع ہونے والی کشیدگی کے بعد اب قبائلی ضلع خیبر کے افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقہ میں طالبان حکومت کی جانب سے پاکستان کے ساتھ مشاورت اور پاکستان کو مطلع کیے بغیر چیک پوسٹ کی تعمیر سے نہ صرف سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے بلکہ دونوں طرف سے طاقت کا بھی استعمال ہوا ہے ذرائع کے مطابق مارٹر گولے سرحد کے قریبی علاقوں میں گرے جس کے باعث دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی میں اضافے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اطلاعات کے مطابق پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے اس سرحدی خلاف ورزی کی کوشش کا مسکت جواب دیاامر واقعہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان جب بھی اس طرح کی صورتحال ہوتی ہے اس کے نتیجے میں سرحد پاک افغان تور خم بارڈر بند ہوتی ہے جس کے باعث آمد رفت اور تجارتی سرگرمیاں ہی متاثر نہیں ہوتیں بلکہ سرحد کے دونوں طرف آمد ورفت مکمل طور پر معطل ہوتی ہے اس طرح کی کیفیت پاک افغان طورخم بارڈر پر گزشتہ دو روز سے جاری ہے جس کے نتیجے میں تجارت مکمل طور پر تعطل کا شکار ہے جو پہلے ہی بہت سکڑ چکی ہے اور مزید اس طرح کے حالات اس پر بری طرح اثر انداز ہو رہے ہیں جس سے بچنے کی بجائے افغان حکام کا اپنی من مانی پر بضد رہنا صورتحال کو مزید کشیدہ بنانے کا باعث ہے۔ طورخم بارڈر کی بندش کے مسئلے پر مذاکرات کابل اور اسلام اباد کے درمیان ہونے ہیں طورخم گیٹ کی بندش کے مسئلے پر اس وقت ہی مذاکرات کا عمل شروع ہو سکے گا جب دونوں حکومتوں کو اس کا احساس ہوگا اس کے بعد ہی تجارت کھل سکے گی اور سرحد کے دونوں اطراف پھلوں اور سبزیوں سے بھری ہزاروں گاڑیاں اور تجارتی سامان کی آمد و رفت ممکن ہو سکے گی پاکستان اور افغانستان کے درمیان بار بار سرحدی تنازعات پر مبنی واقعات میں افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد اضافہ ہو گیا ہے جس کی بڑی وجہ کابل پر قابض حکمرانوں کی عاقبت نا اندیشی ہے جن کی ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں آئے روز تعطل آتا ہے ایک جانب جہاں یہ صورتحال ہے وہاں دوسری جانب پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے حوالے سے پاکستان کی پالیسیوں میں سختی نمایاں ہونے لگی ہے اور پاکستان میں مقیم بعض افغان باشندوں جوامریکہ اور یورپی ممالک کے ویزوں کے وعدے کے ایفا کے منتظر ہیں پاکستان نے ان کی بے دخلی کا اعلان کیا ہے اس ساری صورتحال میں راولپنڈی اور اسلام آباد سے نکالے جانے کے خوف کے باعث یہ مہاجرین ان مہاجرین کی بڑی تعداد پشاور منتقل ہو رہی ہے جس کے باعث پشاور میں پہلے سے ان عناصر کی وجہ سے پیدا شدہ مسائل میں مزید اضافے کا خدشہ ہے بہرحال صوبائی دارالحکومت پشاور میں افغان پناہ گزینوں کے باعث شہریوں اور حکومتی اداروں کی مشکلات میں اضافہ نئی بات نہیں اس سے قطع نظر مشکل امر یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بجائے اس کے کہ تجارتی تعلقات میں بہتری آتی اور دونوں ممالک تجارتی تعاون میں اضافہ کر کے نفع اٹھاتے سرحدی کشیدگی کی نذر کر رہے ہیں پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری تازہ صورتحال بطور خاص اس لیے پریشان کن ہے کہ اب تک کابل اور اسلام آباد کے درمیان اس سلسلے میں سفارتی طور پر سردمہری کی کیفیت واضح ہے ایسا لگتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی طور پر رابطوں کا فقدان ہے یہی وجہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں ایک ہی مسئلے پر بار بار اتار چڑھائو آنے کے باوجود اس کا مل بیٹھ کر حل نکالنے کا راستہ اختیار نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ان کا مستقل حل تلاش کرنے میں سنجیدگی اخٰیار کی جاتی ہے۔ دونوں برادر اسلامی ملکوں کی جانب سے رمضان المبارک کی آمد کے اس مبارک موقع پر اس طرح کی صورتحال سے دونوں ملکوں کے تجارتی حلقوں میں تشویش کی لہر فطری امر ہے خاص طور پر افغانستان میں جس کا انحصار تور خم اور چمن بارڈر پر رسد سے جڑا ہے اگر طور خم بارڈر اسی طرح کشیدگی کاشکار بنی رہی تو افغانستان میں اشیاء صرف کی قلت پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا بہتر یہی ہوگا کہ افغان حکام یکطرفہ طور پر چوکی بنانے کی ضد کی بجائے اس ضمن میں اپنا موقف سفارتی طور پرپیش کریں اور سرحدی حکام مل کر اس مسئلے کا قابل قبول حل تلاش کرنے پر توجہ مرکوز کریں کشیدگی میں اضافہ سے گریز کیا جائے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف تجارتی تعلقات معمول پر آئیں بلکہ بار بار پیش آنے والے اس طرح کے واقعات کا بھی سدباب ہو سکے۔
