شفافیت اور احتساب تحریک انصاف کا وہ نعرہ ہے جس سے عوام میں ان کی مقبولیت اور اقتدار میں آنے کی راہ ہموار ہوئی ماضی کے حکمرانوں کو بدعنوانی کے الزامات پر رگیدتے رگید تے جب پی ٹی آئی کی اپنی حکومت قائم ہوئی توعقدہ کھلا کہ تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کی حکومتوں میں نہ صرف کوئی نمایان فرق نہیں تھا بلکہ اعداد و شمار کے مطابق الٹا بدعنوانی کی شرح میں اضافہ ہوا بہرحال دعوئوں کی حد تک تحریک انصاف اب بھی اس نعرے سے دستبردار نہیں ہوئی اور اس بارے عملی اقدامات اٹھانے کی ان کی سعی جاری ہے مگر مشکل امر یہ درپیش ہے کہ عملی طور پر قیادت کی جانب سے اقدامات کی ہدایت پر عمل درآمد میں مشکلات درپیش ہیں اب کوئی پوشیدہ امر نہیں رہا کہ خیبر پختون خوا میں اینٹی کرپشن فورس کے قیام کے حوالے سے پیشرفت نہیں ہو پارہی ہے صوبائی حکومت کوشش کے باوجود اس ضمن میں دبائو کا شکار ہے ہمارے نمائندے کے مطابق خیبر پختون خوا حکومت کو بیورکریسی کے سامنے سخت فیصلے لینے میں مزاحمت کا سامنا ہے کرپشن کی روک تھام کے لیے تجویز کردہ اینٹی کرپشن فورس کا قانون اجلاسوں کی نذر ہو گیا ہے اس ضمن میں حیرت انگیز طور پر وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے احکامات بھی نظر انداز کر دئیے گئے ہیں جنہیں اڈیالہ جیل میں اسیر قائد عمران خان کی جانب سے اس سلسلے میں خصوصی طور پر ہدایت جاری کی گئی تھی واضح رہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا نے 29 جنوری کے اجلاس میں ہدایت کی تھی کہ اینٹی کرپشن فورس کا مسودہ فوری طور پر کابینہ میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے تاہم اس موقع پر مسودہ میں خامیوں کو دور کرنے کا عذر تراش کر معاملہ وقتی طور پر ٹال دیا گیا اگلے کابینہ اجلاس میں بھی پیش نہ کیا جا سکا جس کے بعد سے اب تک کابینہ کے چار اجلاس ہو چکے ہیں لیکن اینٹی کرپشن فورس کا مسودہ ہنوز اجلاس میں پیش نہ ہونا سوالیہ نشان ہے ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کی ہدایات اور وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا کی کوششوں پر بیوروکریسی کی ناراضگی بھاری پڑ گئی ہے یہ بیوروکریسی کا دیرینہ حربہ رہا ہے کہ وہ ایسے اقدامات اور قوانین کی راہ میں مزاحم ہوتی ہے جس سے ان کے اختیارات بلکہ بدعنوانی پر قدغن کا امکان ہو طرفہ تماشہ یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا نے اینٹی کرپشن فورس سے متعلق گزشتہ ہفتے بھی اجلاس طلب کیا تھا تاہم وہ اجلاس بھی بوجوہ منعقد نہ ہو سکا اور یہ مسودہ اب اجلاسوں میںبحث و مباحثہ میں الجھ گیا ہے جسے نہ تو منظوری کے لیے پیش کیا جا رہا ہے اور نہ ہی مسترد کیا جا رہا ہے اجلاس پر اجلاس منعقد کرنے کا لا حاصل تجربہ دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ دبا ئوکا شکار صوبائی حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہ کار باقی نہیں رہا صوبائی حکومت شاید بیوروکریسی کی ناراضگی مول لینے کی متحمل نہیں ہو سکتی لیکن دوسری جانب تحریک انصاف کے بانی کی جانب سے ہدایات کو اس طرح سے پس پشت ڈالنے کا عمل بھی کچھ کم خسارے کا نہیں جن کی کوشش رہتی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت میں شفافیت اور احتساب کا نظام رائج ہو اور بدعنوانی کی ہر ممکن روک تھام ہو سکے اب یہ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین خان گنڈاپور کے لیے چیلنج کا باعث امر ہے کہ وہ اس معاملے سے کس طرح نمٹتے ہیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے بہرحال اگر صوبے میں بدعنوانی کی روک تھام یقینی بنانا مطلوب ہے تو اس کے لیے نہ صرف سخت سے سخت قوانین کا نفاذ ضروری ہوگا بلکہ ان قوانین پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد کی ذمہ داری بھی پوری کرنی ہوگی خیبر پختون خوا میں اچھی حکمرانی کے حوالے سے قبل ازیں ماضی میں جو مساعی کی گئیں بدقسمتی سے اس ضمن میں ایسے اقدامات اور مداخلت کی مثالیں موجود ہیں جس کے باعث بیوروکریسی اور سرکاری ملازمین کو بلاوجہ ہراسانی اور فیصلہ کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کے باعث بجٹ کی رقم تک خرچ نہ ہو سکی شاید بیوروکریسی اسی طرح کی کسی تجربے کی شاکی ہے ان کے خدشات کو اس تناظر میں سرے سے بے جابھی قرار نہیں دیا جا سکتا بنا بریں ضرورت اس امر کی ہے کہ اینٹی کرپشن فورس کے قیام کے حوالے سے ایسی صریح اور واضح قانون سازی کی جائے جس سے ابہام پیدا نہ ہو اور نہ ہی اختیارات کے استعمال کا تمام بوجھ بیوروکریسی پر پڑے وزیراعلی خیبر پختونخوا اور ان کی کابینہ کے ارکان بشمول اراکین اسمبلی و سینٹ اور تحریک انصاف کی بااثر شخصیات اگر اپنے اختیارات اور اثرو رسوخ کو شفاف اور میرٹ کے مطابق بروئے کار لانے اور فیصلہ سازی میں عدم مداخلت کو یقینی بنانے کا عملی راستہ اختیار کریں گے تو یہ بھی بیوروکریسی کا قبلہ درست کرنے اور شفافیت یقینی بنانے کی عملی ابتداء ہوگی جس پر توجہ کی ضرورت ہے۔
